- فتوی نمبر: 2-214
- تاریخ: 06 جنوری 2009
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
کیا فرماتے علماء دین و مفتیان شرع متین دریں صورت مسئلہ کہ فیصل آباد سے /20 کلومیٹر دور دو قصبے ایسے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک 15 سے 20 ہزار تک آبادی پر مشتمل ہے ۔ دونوں گاؤں میں مرزائیت وسائل واسباب اور افراد کے اعتبارسے غالب ہے۔یہا ں تک کہ مرزائیت کی ڈبل منزل عبادت گاہیں ، ڈسپنریاں اور دیگر کئی رفاہی کام جاری ہیں جن کی بدولت کافی مقدار میں لوگ ارتدادی سرگرمیوں کا شکار ہوچکے ہیں اور مزید ہورہے ہیں ۔ جبکہ مسلمانوں کی جانب کسی دینی شعبے کا موثر انداز میں انتظام نہیں ہے ۔ اور نہ ہی دینی درسگاہ ہے کہ ارتداد کا سد باب ہوسکے ۔ اس صورت حال کے پیش نظر اہل خیر میں سےکسی مقامی ساتھی نے کچھ جگہ دینی درسگاہ کے قیام کے لیے دی ہے ۔ جس پر علماء اور بزرگان دین کی مشاورت سے کام شروع کرنے کا پروگرام ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا جگہ پر رقم خرچ کرنے کی صورت کیا ہے؟ نیز زکوٰة کی رقم کو اس درسگاہ کے لیے استعمال کرنےکا طریقہ کیا ہے ؟ اور مقامی خوش حال لوگوں پر اس سلسلے میں کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اس درسگاہ کی تعمیر پر اول تو زکوٰة اور صدقات واجبہ کے علاوہ رقوم خرچ کی جائیں۔ اور اگر صدقات واجبہ کے علاوہ رقوم کفایت نہیں کرتیں اور بأمر مجبوری زکوٰة ، یا صدقات واجبہ کی رقوم خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو تملیک کے طریقہ کے ذریعے یہ رقوم خرچ کی جائیں۔
نیز قصبہ کےجوحالات سوال میں مذکور ہیں ،ان کی بنا پر خاص کر اہل قصبہ پر ضروری ہے کہ وہ اس درسگاہ کی تعمیر وترقی کے لیے اپنی وسعت کے بقدر ہر قسم کا تعاون کریں۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved