• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سونے اور چاندی کا نصاب

استفتاء

شریعت نے زکوٰہ کے لیے ایک مقررہ مقدار کو معیار بنا یا ہے، جس کو اصطلاح میں نصاب کہا جاتا ہے، یہ غنا کا بھی پیمانہ  ہے اور فقر کا بھی۔ یعنی اس نصاب کے مالک ہونے کی وجہ سے زکوٰة واجب ہوتی ہے اور اسی نصاب کے بقدر مال کے مالک ہونے پر وہ مصرف زکوٰة بننے سے محروم ہوتا ہے، گویا استحقاق زکوٰة اور حرمان زکوٰة  دونوں کے لیے کسی قدر فرق کے ساتھ یہی  معیار ہے۔

پھر اموال زکوٰة میں بعض تو وہ ہیں جو بجائے خود انسانی ضرورت کو پورا کرتے ہیں، جیسے اجناس اور حیوانات اور بعض وہ ہیں جو انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسیلہ بنتے ہیں، جیسے سونا اور چاندی، پہلی قسم کی چیزوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ قیمت کے گھٹنے اور بڑھنے سے اس کی افادیت  اور نافعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، لیکن سونے اور چاندی کی حیثیت ذریعہ تبادلہ کی ہے، اس لیے اس میں اس کی قدر اور قوت خرید کی بڑی اہمیت ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے صراحتاً سونے اور چاندی  کا نصاب مقرر فرمایا ہے، حضورﷺ کے زمانہ میں بھی اور آپ ﷺ کے بعد بھی طویل عرصہ تک سونے اور چاندی کی قوت خرید اور قدر یکساں تھیں، لیکن اب دونوں میں بڑا فرق ہو گیا ہے۔ مثلاً  اس وقت ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت ایک لاکھ سے اوپر ہے اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت دس ہزار سے کچھ اوپر ہے، اس طرح ان دونوں نصاب کی قدر میں کوئی  مناسبت نہیں رہی، وجوب زکوٰة کے ساتھ ساتھ حرمان زکوٰة کے مسئلہ میں بھی خاص طور پر دشواری پیش آتی ہے ، کیونکہ چاندی کے نصاب کے اعتبار سے اگر کوئی شخص بنیادی ضروریات کے علاوہ پندرہ ہزار روپے کی کسی شے کا مالک ہو تو اسے زکوٰة  نہیں دی جاسکتی ہے، حالانکہ آج کے ماحول میں یہ بہت معمولی رقم متصور ہوتی ہے۔

اس پس منظر میں دو سوالات پیش خدمت ہیں:

1۔ یہ بات ظاہر ہے کہ سونا اور چاندی کا نصاب منصوص  ہے ، اگر کوئی شخص سونے یا چاندی کی مقررہ مقدار کا مالک ہو جائے تو اس پر اس مال کی زکوٰة واجب ہو جائے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اگر کسی شخص کے پا س نقد روپے یا سامان تجارت ہو، تو زکوٰة واجب ہونے کے لیے پیمانہ سونے کا نصاب ہوگا یا چاندی کا نصاب؟ یعنی اگر کسی شخص کے پا س مثلاً اتنی نقد رقم ہو جس سے  نصاب کے بقدر چاندی تو خرید کی جاسکتی ہو  لیکن نصاب کے بقدر سونا خریدا نہیں جاسکتاہو، تو ایسے شخص پر زکوٰة واجب ہوگی یا  نہیں؟ اسی طرح اگر کسی شخص کے پاس نقدر قم  مال تجات یا اموال زکوٰة کے علاوہ کوئی مال  چاندی کے نصاب کی قیمت کا موجود ہو، مگر وہ سونے کی قیمت کو نہیں پہنچتا ہو، تو اس کے لیے زکوٰة لینا جائز ہوگا یا حرام؟

2۔ حنفیہ کے نزدیک اگر کسی شخص کے پاس کچھ مقدار سونے او ر کچھ مقدار چاندی کی  ہو اور دونوں کا مجموعہ نصاب کے بقدر ہو

جاتا ہے  تو زکوٰة واجب ہوجاتی ہے، البتہ امام ابو حنیفہ  کے نزدیک اس میں قیمت کا اعتبار ہے ، اگر کسی کے پاس کچھ چاندی اور کچھ سونا ہو اور دونوں کی مجموعی قیمت چاندی کے نصاب کے برابر ہو جاتی ہے  تو موجودہ قیمت کے لحاظ سے امام صاحب کے ہاں زکوٰة واجب  ہوجائے گی، جبکہ صاحبین ضم الاجزاء کے قائل ہیں، یعنی سونے اور چاندی میں سے ایک کی مقدار اس کے نصاب کے ایک تناسب کو پورا کرتی ہو اور دوسرےکی مقدار اس کے نصاب کے بقیہ تناسب کو پورا کردیتی ہو،تب زکوٰة واجب ہوتی ہے، مثلاً سونا اس کے نصاب کا ایک چوتھائی ہے، اور چاندی اس کے نصاب کا تین چوتھائی ہے توا ب زکوٰة واجب ہوگی، موجودہ حالات میں امام صاحب کے قول پر ممکن ہے کہ ایک تولہ سونا اورا یک تولہ چاندی میں زکوٰة واجب ہو جائے اور سات تولہ صرف سونا ہو تو زکوٰة واجب نہ  ہو پائے، ایسی صورت میں کیا ضم الاجزاء  کے مسئلہ  میں صاحبین کے  قول کو اختیا رکیا جا سکتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

.i آپ کے دونوں سوالوں کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک عرصہ تک سونے  اور چاندی کی قیمتوں میں ایک مخصوص تناسب قائم رہا۔ پھر وہ تناسب بدل گیا اور اب مالیتوں میں بے انتہا تفاوت ہو گیا ہے۔ لہذا ہم کہیں کہ سونا اپنی مالیت وقیمت  پر قائم ہے اور چاندی قیمت میں بہت پیچھے رہ گئی لہذا چاندی کو سونے سے مطابقت دی جائے۔

ہم کہتے ہیں:

اس پر عمل کرنا بھی دشوار ہے کیونکہ

1۔ اس کے برعکس بھی کیا جاسکتا ہے کہ چاندی اپنی اصل قیمت پر باقی ہے اور سونے کو اس سے مطابقت دینی چاہیے۔

2۔ جس کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہو اس  پر سونے کے نصاب کے اعتبار سے زکوٰة واجب نہ ہو، کیونکہ سونے کا نصاب نہ بنا حالانکہ ایک لاکھ روپیہ کسی شخص کے مالدار و غنی ہونے کے لیے کافی ہے۔

3۔ جس کے پاس بیس ہزار مالیت کی ساڑھے باون تولہ  چاندی ہو اس پر آپ زکوٰة دینے کا حکم لگاتے ہیں حالانکہ ایک لاکھ روپے پر نہیں لگاتے۔

4۔  آپ کے منشا  کے مطابق جس کے پاس ایک لاکھ کی مالیت کا سونا اور جو تین تولہ بنتا ہے  وہ زکوٰة لے سکتا ہے۔جبکہ بیس ہزار روپے کی مالیت  کی چاندی والا زکوٰة نہیں لے سکتا۔

البتہ جس کے پاس صرف 5 تولہ سونا ہو چاندی  اور روپیہ نہ ہو تو چونکہ شریعت کی روسے نصاب سے کم ہے تو امر تعبدی کی وجہ سے ہم اس پر زکوٰة کے وجوب کا حکم نہیں لگاتے۔

.ii رہا ضم اجزاء کا مسئلہ تو اس میں بھی درجہ ذیل قسم کے اشکلات پیش آتے ہیں:

1۔ کسی کے پاس 5 تولہ سونا اورایک سوروپے ہوں تو یہ شخص باوجود مالد وغنی ہونے کے زکوٰة وصول کرسکتا ہے اورا س پر زکوٰة فرض نہیں حالانکہ اس کی مالیت آجکل ڈیڑھ لاکھ سے بھی زائد ہے،جبکہ محض بیس ہزار کی چاندی والا زکوٰة دینے کا پابندہے۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق یہ اشکالات پیدا نہیں ہوتے اور اس لیے

1۔ اگر کسی کے پاس محض ایک تولہ سونا ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا زائد ہو تو اگر چہ نص کی رو سے اس پر زکوٰة واجب نہیں لیکن وہ زکوٰة بھی نہیں لے سکتا۔

2۔ اگر کسی کے پاس کچھ سونا اور کچھ چاندی ہوتو قیمت کے اعتبار سے چاندی کے نصاب کو معتبر مانیں گے۔

3۔ اگر کسی کے پاس روپیہ ہوتو چاندی کے نصاب کا اعتبار  ہوگا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved