• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رؤیت ہلال کمیٹی کے چاند دکھائی دینے ،نہ دینے کے فیصلےکا حکم

استفتاء

علم دید ہلال کے علماء / ماہرین کے مطابق نیا چاند اس وقت تک دکھائی نہیں دیتا جب تک اس کی عمر غروب آفتاب کے وقت تقریباً 20 گھنٹے اور غروب شمس و غروب قمر کا درمیانی فرق تقریباً 40 منٹ نہ ہو جائے۔

علم دید ہلال کے علماء کے مطابق شوال المکرم کا چاند جمعتہ المبارک  17- 8 2012 کو پاکستان کے معیاری وقت کے مطابدق رات آٹھ بجکر 54 منٹ پر پیدا ہوا۔ 18- 8 کی شام غروب آفتاب کے وقت چاند کی عمر اگرچہ پشاور میں 22 گھنٹے 02 منٹ ، راولپنڈی/ اسلام آباد میں 21 گھنٹے 57 منٹ، لاہور میں 21 گھنٹے  49 منٹ، کوئٹہ میں 22 گھنٹے 16 منٹ اور کراچی میں 22 گھنٹے 08 منٹ جبکہ سب سے زیادہ عمر  گوادر میں 22 گھنٹے 28 منٹ نیز جیوانی اور زیارت میں 22 گھنٹے 29 منٹ تھی۔ لیکن دوسری جانب غروب شمس اور غروب  قمر کا درمیانی فرق جو 40 منٹ ہونا چاہیے وہ پشاور میں 08 منٹ، روالپنڈی/ اسلام آباد میں بھی 08 منٹ، لاہور میں 10   منٹ، کوئٹہ میں 12 منٹ جبکہ کراچی اور جیوانی میں 17 منٹ تھا لہذا چاند پاکستان کے کسی بھی حصہ میں 29 رمضان المبارک بمطابق 18 – 8 -2012ء کی شام دکھائی نہیں دے سکتا تھا۔

بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ اگر نفی ہو تو یقینی ہوتا ہے اگر مثبت ہو تو ظنی ہوتا ہے، یعنی اگر چاند دکھائی دینے کا امکان قطعاً نہ ہو تو یقینی ہوتا ہے لیکن اگر امکان ہو تو یہ یقینی نہیں ہوتا کہ شاید بادل آجائیں یا موسم ٹھیک نہ ہو اور چاند دکھائی نہ دے سکے۔

اخباری اور ٹیلی وژن خبروں کے مطابق جمعتہ المبارک 17- 8 کی شام ہی سات افراد نے وزیرستان میں چاند دکھائی دینے کی شہادت دی۔ ( علم دید ہلال کے علماء / ماہرین کے مطابق نیا چاند اس وقت تک ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا )۔ 26 علماء کرام نے ان شہادتوں  کو قبول کر کے عید منانے کا اعلان کر دیا جبکہ علم دید ہلال کے علماء/ ماہرین کے مطابق نیا چاند اگلے روز ہفتہ کی شام کو بھی دکھائی نہیں دینا تھا۔

پاکستان میں شوال کا چاند دکھائی دینے یا نہ دینے کا اعلان کرنے کے لیے مرکزی رؤیٹ ہلال کمیٹی کا اجلاس 18- 8 – 2012 بمطابق 29 رمضان المبارک 1433ھ بروز  ہفتہ کراچی میں منعقد ہوا۔ مرکزی رؤیت کمیٹی نے اعلان کیا کہ چاند دکھائی نہیں دیا لہذا اگلے  روز اتوار کو تیسواں روزہ جبکہ سوموار 20- 8- 2012ء کو عید منائی جائے گی۔ ایک عالم دین نے لاہور میں اعلان کیا کہ وہ اگلے روز اتوار 19 اگست کو روزہ نہیں رکھیں گے بلکہ عید منائیں گے، نیز انہوں نے عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ بھی روزہ نہ رکھیں۔

کیا فرماتےہیں مفتیان عظام و علماء دین اسلام بیچ اس مسئلہ کے کہ اگر ملک کا حاکم یا اس کا نائب یہ اعلان کر دے کہ شوال کا چاند دکھائی نہیں دیا اور اگلے روز عید الفطر نہیں بلکہ روزہ ہے لیکن کوئی عالم دین یہ اعلان کرے گا وہ اگلے روز روزہ نہیں رکھے گا بلکہ عید منائے گا اور وہ اپنے معتقدین سے بھی یہ کہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں تو کیا ایسے عالم دین کا عید منانا دین اسلام کے مطابق  ہے؟ اگر دین اسلام کے مطابق ہے تو جن لوگوں نے روزہ رکھا اور عید نہیں منائی ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

اگر ایسے عالم دین کا روزہ نہ رکھنا خلاف دین ہے تو کیا اسے روزہ نہ رکھنے پر اپنا  اور ان لوگوں کا کفارہ ادا کرنا ہوگا جنہوں نے اس کے کہنے پر روزہ نہیں رکھا؟ نیز کفارہ کیا ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کسی کے خلاف کوئی حکم لگانے سے پہلے اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ اس شخص نے حکومتی ادارے کے فیصلہ کے برخلاف اپنا فیصلہ کس بنیاد پر دیا تھا۔ لہذا آپ کے علم میں ان صاحب کا موقف ہو تو اس کو لکھ کر بھیجیں بلکہ اگر ہو سکے تو خود ان صاحب سے لکھوا کر بھیجیں۔

یہ بات یاد رہے کہ روزے کا کفارہ رمضان کا روزہ رکھ کر توڑ دینے پر ہوتا ہے روزہ نہ رکھنے پر نہیں۔ روزہ نہ رکھنے پر صرف قضا آتی ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved