- فتوی نمبر: 5-99
- تاریخ: 20 جولائی 2012
- عنوانات: حظر و اباحت > پردے کا بیان
استفتاء
بندے کو تعلقات بنانے کا مرض ہے جس کی بنا پر مختلف دینی حلقوں میں اچھی خاصی واقفیت بھی ہے اور طرح طرح کے واقعات سننے کو ملتے ہیں ایک بات جس کے نہ صرف مختلف واقعات سنے بلکہ بعض جاننے والوں کو ا س میں خود مبتلا ہوتے دیکھا کہ نوجوان مفتی صاحب یا مولوی صاحب سے خاتون نے ان کے موبائل پر مسئلہ پوچھا، ہوتے ہوتے بے تکلفی اور نتیجتاً بعض جگہ خفیہ شادی اور بعض دفعہ دیگر خرابیوں تک معاملہ جا پہنچا۔
اس پس منظر میں عرض ہے کہ بندہ خواتین سے موبائل پر بات نہیں کرتا اور مسئلہ بھی نہیں بتاتا۔ گذشتہ ایام میں میرے ایک دوست کی نوجوان بہن کا فون آیا کہ مسئلہ پوچھنا ہے، عرض کیا معذرت ، کسی اور سے پوچھ لیں پھر دارالافتاء کا نمبر دیا۔ پھر میسج پر دارالعلوم کےمفتی ****صاحب کے گھر کا نمبر دیا جس پر ان کی اہلیہ خواتین کو مسائل بتاتی ہیں، مفتی صاحب کی نگرانی میں اور یہ بھی تلقین کی کہ ایسے براہ راست مسئلہ پوچھنے کی بجائے والدہ ، والد، بھائی کو واسطہ بنائیں یا پھر کسی معتمد خاتون سے رابطہ کریں جیسا کہ اوپر ایک مفتی صاحب کی اہلیہ کا تذکرہ ہے۔ نیز کسی نوجوان مفتی سے موبائل پر مت رابطہ کریں۔ فقط
اب حضرت مدظلہ سے یہ پوچھنا ہے کہ میرا یہ عمل اور ایسی ترغیب جائز ہے۔ یا غلو اور تشدد پر مبنی ہے؟ نیز کیا مرد و خواتین مفتی و مستفتی میں اس احتیاط کی ترغیب چلائی جاسکتی ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
احتیاط اچھی چیز ہے۔ اس کی ترغیب دینا جائز ہے غلو نہیں ہے۔ البتہ مطلقا ناجائز بھی نہ کہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved