• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

موٹروے وغیرہ کے قیام و طعام کی جگہ بنی ہوئی مساجد میں تکرار جماعت

استفتاء

آج کل موٹروے پر قیام و طعام کی جگہ پر مساجد بھی ہوتی ہیں جن میں امام و مؤذن و خادم وغیرہ بھی با قاعدہ ہوتے ہیں اور اس جگہ کا عملہ بھی وہاں نماز پڑھتا ہے، اذان بھی ہوتی ہے، نمازوں کے اوقات بھی مقرر ہوتے ہیں اور ان مقررہ اوقات پر ان مساجد میں با جماعت نماز ادا کی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان مساجد میں دوسری جماعت کرانے کا کیا حکم ہے؟ یہ مساجد بھی مسجد محلہ ہی میں شمار ہوتی ہیں یا یہ مسجد مسجد طریق کے زمرے میں آتی ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو  مساجد موٹروے پر قیام و طعام کی جگہ بنی ہوئی ہیں ان میں جماعت ثانی جائز ہے۔ کیونکہ یہ مساجد مسجد طریق کے زمرے میں آتی ہیں اگرچہ ان میں امام، مؤذن اور خادم مقرر ہیں۔

  1. المسجد إذا كان له إمام معلوم و جماعة معلومة في محلة فيصلی أهله فيه بالجماعة لا يباح تكرارها فيه بأذان ثان، أما إذا صلوا بغير أذان يباح إجماعاً و كذا في مسجد قارعة الطريق. (هندية: 1/ 83)
  2. و التقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع. (رد المحتار: 2/ 343)
  3. و يكره تكرار الجماعة بأذان و إقامة في مسجد محله لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له و لا مؤذن. (قوله: بأذان و إقامة الخ) عبارته في الخزائن: أجمع مما هنا و نصها: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان و إقامة، إلا إذا صلی بهما فيه أولاً غير أهله، أو أهله لكن بمخافتة الأذان و لو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعاً، كما في مسجد ليس له إمام و لا مؤذن و يصلي الناس فيه فوجاً فوجاً، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان و إقامة علی حدة كما في أمالي قاضيخان. (رد المحتار: 2/342 )
  4. إن نحو المسجد المكي و المدني ليس له جماعة معلومون فلا يصدق عليه أنه مسجد محلة بل هو كمسجد شارع و قد مر أنه لا كراهة في تكرار الجماعة فيه إجماعاً. (رد المحتار: 2/ 344)
  5. قال العلامة التهانوي رحمه الله بنی الشامي الجواب (أي عدم كراهة تكرار الجماعة في المسجد المكي و المدني: محمد رفيق) علی كونهما مسجد شارع (أي كمسجد شارع كما في عبارة الشامي: محمد رفيق) مع أن لهما إماماً و مؤذناً معيناً. (إمداد الفتاوی: 1/ 246)
  6. امداد الفتاویٰ میں ہے:

"روایاتِ فقہیہ مذکورہ سے چند صورتیں اور ان کے احکام معلوم ہوئے:

1۔ صورت اولیٰ: مسجد محلہ میں غیر اہل نے نماز پڑھی ہو۔

2۔ صورت ثانیہ: مسجد محلہ میں اہل محلہ  نے بلا اعلان و اذان یا بلا اذان بدرجہ اولیٰ نماز پڑھی ہو۔

3۔ صورت ثالثہ: وہ مسجد طریق پر ہو۔

4۔ صورت رابعہ: اس مسجد میں امام و مؤذن معین نہ ہو۔

5۔ صورت خامسہ: مسجد محلہ ہو یعنی اس کے نمازی اور امام متعین ہوں اور انہوں نے اعلان اذان کی صورت سے نماز پڑھی ہو۔

پس صور اربعہ اولیٰ میں تو بالاتفاق جماعت ثانیہ جائز بلکہ افضل ہے۔” (امداد الفتاویٰ: 1/ 242)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved