استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ ایک شخص حافظ قرآن تقریباً عرصہ چھ سال سے قرب رمضان ڈاڑھی کٹوانا چھوڑ دیتا ہے، اور مسجد میں علماء و احباب کے سامنے بھر پور توبہ کا اظہار کرتا ہے، مگر رمضان کے بعد دوبارہ کٹوانے کا عمل شروع کر دیتا ہے، اس سال پھر ایسے ہی توبہ کی اور عہد کیا کہ ڈاڑھی نہیں کٹواؤں گا، مجھے تراویح مسجد میں پڑھانے دی جائے جبکہ داڑھی ابھی تک مٹھی بھر نہیں ہوئی، قرآن و سنت کی روشنی میں اس کے پیچھے نمازِ تراویح پڑھنا اور اسے انتظامیہ مسجد کا مصلیٰ پر کھڑا کرنا درست ہے یا نہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا مشرکین کی مخالفت کرو، ڈاڑھیاں بڑھاؤ مونچھیں کٹواؤ۔ (مشکوٰۃ: 380)
2۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا مونچھیں کٹواؤ اور ڈاڑھیاں بڑھاؤ مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ (مسلم: 1/ 129)
3۔ حضرت نبی کریم ﷺ مٹھی بھر سے زائد ڈاڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔ (شرح شرعۃ الاسلام :198، ترمذی: 2/ 105)
4۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی مٹھی سے زائد ڈاڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔ (بخاری: 2/ 875، ابو داؤد: 1/ 342)
5۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے بھی مٹھی سے زائد ڈاڑھی کو کاٹنا ثابت ہے۔ (مصنف ابن شیبہ: 8/ 375)
مذکورہ روایات سے واضح ہوا کہ داڑھی بڑھانا اور مونچھیں کٹوانا حکمِ رسول ﷺ ہے اور مکمل ڈاڑھی کٹوانا اور مونچھیں نہ کٹوانا مجوسیوں (آگ کے پجاریوں) کا عمل ہے اور ڈاڑھی بڑھانے کی حد مٹھی بھر ڈاڑھی رکھنا ہے اور اس سے زائد کو کٹوانا حضرت نبی کریم ﷺ اور حضرات صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنہم کا عمل ہے اور محققین اہلسنت لکھتے ہیں۔ مکمل ڈاڑھی منڈانا ہندوستان کے یہودیوں اور عجم کے مجوسیوں کا فعل ہے اور کچھ رکھ لینا یعنی مٹھی سے کم فیشنی انداز اختیار کرنا یہ مغربی غیر مسلم اور ہیجڑوں کا طریقہ ہے چنانچہ قرآن و سنت کی روشنی میں تمام فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ ہر مسلمان آدمی کے لیے مٹھی بھر ڈاڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے، اس سے کم ڈاڑھی رکھنے والا شخص میں تمام فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ ہر مسلمان آدمی کے لیے مٹھی بھر ڈاڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے، اس سے کم ڈاڑھی رکھنے والا شخص فاسق معلن (اعلانیہ مجرم) ہے، اس کے پیچھے نماز فرض ہو یا تراویح مکروہ تحریمی ہے، نیز فاسق واجب الاہانت ہے جبکہ امامت میں اس کی تعظیم ہے، اس لیے اس کا امام بنانا شرعاً جائز نہیں۔
و في الدر: و أما الأخذ منها و هي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم. (كتاب الصوم: 2/ 155، فتح القدير، باب الصوم)
و في الشامية: و أما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه و بأن في تقديمه للإمامة و قد وجب عليهم إهانته شرعاً. (1/ 532)
لہذا سوال میں جس عادی مجرم کا ذکر ہے اسے اپنے آپ کو منصب امامت کے لیے پیش کرنا یا انتظامیہ مسجد کا اس کو امام بنانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ جب تک اس کی ڈاڑھی مٹھی بھر نہ ہو جائے۔ (احسن الفتاویٰ: 3/ 262)
اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں استاد مکرم حضرت مفتی سید عبد القدوس صاحب ترمذی دامت برکاتہم العالیہ کی تحریر ملاحظہ ہو:
"ایک مشت سے ڈاڑھی کم کرنا بالاتفاق نا جائز اور حرام ہے، ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، اس کو انتظامیہ کا اپنے اختیار سے امام بنانا جائز نہیں، لیکن اگر اس کو امام بنا دیا گیا تو ۔۔۔۔ تراویح میں اس کی اقتداء کسی صورت میں بھی جائز نہیں، اس لیے تراویح اس کے پیچھے ادا کریں۔
قال في الشامية: و أما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه … (باب الإمامة)
لہذا ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ وہ سچی توبہ کر لے اور سچی توبہ (ظاہری طور پر) یہی علامت ہے کہ ڈاڑھی ایک مشت ہو جائے، جب تک ڈاڑھی ایک مشت نہ ہو گی وہ مظنہ تہمت (بد گمانی کا محل) ہی رہے گا۔ ادھر جن لوگوں کو توبہ کا علم نہیں، ان کو مغالطہ ہو گا وہ یہی سمجھیں گے کہ ڈاڑھی کٹوانے کے باوجود بھی بغیر توبہ کیے یہ شخص نماز پڑھا رہا ہے …………… اگرچہ شخص مذکورہ نے ڈاڑھی منڈوانا چھوڑ دیا ہے اور توبہ کر لی ہے …………… مگر چونکہ ڈاڑھی ابھی تک مٹھی بھر نہیں ہوئی اس لیے احتمال ہے کہ یہ توبہ صرف تراویح کے لیے ہو، نیز اگر یہ احتمال نہ بھی ہو تب بھی عوام کو مغالطہ ہو گا کہ فاسق نماز پڑھا رہا ہے۔ …………… ایسے شخص کو فرائض اور بطور خاص تراویح میں امام نہ بنایا جائے ……………” فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved