- فتوی نمبر: 2-373
- تاریخ: 21 اگست 2009
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
ایک آدمی کا کاروبار ہے کباڑیے کا جب اس نے کام شروع کیا تھا تومالیت بالکل ٹھیک تھی بعد میں کام ناجائز مالیت میں تقسیم ہوگیا مثلاً اس میں تقریباً 8 یا 10 قسم کا سامان ہے ،لوہا، پیتل، پلاسٹک ، سلور وغیرہ اور سب سے زیادہ مالیت لوہے کی ہے اور لوہے کی صورت یہ ہے کہ یہ اکثر مسروقہ ہے اور بالواسطہ اس کے پاس آتا ہے یعنی سارق پہلے جس دکاندار کو مال دیتاہے پھر وہاں سے یہ آدمی خرید کرلاتاہے اور کچھ لوہا اس کے پاس خوداس کی دکان میں موجود ہے اس میں بھی کچھ ٹھیک ہے اور کچھ مسروقہ ہے پھر اس مالیت سے باقی جتنی مال و سامان کی قسمیں خرید ی جارہی ہیں آیا کہ اس کے بارے میں کیا حکم ہے اور اگر کوئی آدمی ان پیسوں کو ہدیہ دے اور پھر اس ہی آدمی سےبطور قرض کے لےلے، یا آدمی ان کو ہد یہ کردے اور دوسراآدمی ان کو واپس ہد یہ کردے تو کیسا ہے اور اگر یہ مالیت شبہات کےساتھ ہے توان دوحیلوں سے آدمی شبہات سے نکل جاتاہے یانہیں؟
یا اورکوئی صورت تحریر فرمادیں کہ آدمی اس مالیت کو شبہات سے پاک کرکے استعمال کر سکیں اور جس کو یہ قرض دیا جارہا ہے آیا کہ اس کو لینا اس آدمی کےلئےجائز ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔جس مال کے بارے میں غالب اندازہ ہو کہ چور ی کا ہے اس کا خریدنا اور آگے فروخت کرنا ناجائزہے اور آمدنی بھی ناجائز ہے ، مذکورہ حیلے بیکارہیں ۔قرض لینے کاکیا مسئلہ ہے کیا پوچھنا چاہتےہیں کون لینا چاہتاہے اور کیوں؟
© Copyright 2024, All Rights Reserved