- فتوی نمبر: 8-10
- تاریخ: 04 مئی 2017
- عنوانات: عبادات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
1۔ اگر کوئی شخص نماز جنازہ میں حاضر ہوا اس کی کچھ تکبیریں رہ گئیں۔ کیا وہ عام نمازوں کی طرح فوراً شریک ہو جائے یا کس طرح شریک ہو؟
2۔ اسی طرح جو تکبیریں رہ گئیں ہیں ان کو کب ادا کرے اور دعاؤں کا کیا حکم ہے؟ صرف تکبیریں ادا کرے گا یا دعائیں بھی پڑھے گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں وہ فوراً شریک نہ ہو بلکہ امام کے اگلی تکبیر کہنے تک انتظار کرے۔ جب امام اگلی تکبیر کہے تب تکبیر کہہ کر نماز میں شریک ہو۔ البتہ اگر چوتھی تکبیر کے بعد سلام سے پہلے حاضر ہو تو فوراً شریک ہو جائے اور امام کے سلام کے بعد باقی تین تکبیروں کو ادا کرے۔ فتاویٰ عالمگیریہ (1/164) میں ہے:
وإذا جاء رجل وقد كبر الإمام التكبيرة الأولى ولم يكن حاضرا انتظره حتى يكبر الثانية ويكبر معه…… وكذا إن جاء وقد كبر الإمام تكبيرتين أو ثلاثا كذا في السراج الوهاج وإن جاء رجل وقد كبر الإمام أربعا ولم يسلم لا يدخل معه في رواية عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى والأصح أنه يدخل وعليه الفتوى كذا في المضمرات.
عمدۃ الفقہ (2/521) میں ہے:
’’اگر کوئی شخص ایسے وقت میں آیا کہ امام پہلی تکبیر کہہ چکا ہے اور پہلی تکبیر کے وقت یہ حاضر نہ تھا تو یہ اس کے ساتھ شامل نہ ہو بلکہ ٹھہرا رہے اور انتظار کرے اور جب امام دوسری تکبیر کہے تو اس کے ساتھ تکبیر کہہ کر نماز میں شامل ہو جائے۔ اسی طرح اگر دو یا تین تکبیریں امام کہہ چکا ہے تب یہ آیا تب بھی یہی حکم ہے کہ فوراً شامل نہ ہو جائے بلکہ اب جس وقت امام تکبیر کہے تو یہ شامل ہو جائے اور یہ تکبیر اس آدمی کے حق میں تکبیر تحریمہ ہو گی اور فوت شدہ تکبیروں کو بعد فراغت امام ادا کرے اسی پر فتوٰ ی ہے۔‘‘
2۔ رہی ہوئی تکبیروں کو امام کے سلام کے بعد ادا کرے۔ اگر جنازہ اٹھانے سے پہلے پہلے دعاؤں اور تکبیروں دونوں کو ادا کر سکتا ہے تو دونوں کو ادا کرے ورنہ صرف تکبیروں کی ادائیگی پر اکتفاء کرے دعائیں نہ پڑھے۔
فتاویٰ شامی (2/134) میں ہے:
(والمسبوق) ببعض التكبيرات لا يكبر في الحال بل (ينتظر) تكبير (الإمام ليكبر معه) للافتتاح
لما مر أن كل تكبيرة كركعة ، والمسبوق لا يبدأ بما فاته . وقال أبو يوسف : يكبر حين يحضر (كما لا ينتظر الحاضر) في ( حال التحريمة ) بل يكبر اتفاقا للتحريمة ،لأنه كالمدرك ثم يكبران ما فاتهما بعد الفراغ نسقاً بلا دعاء إن خشيا رفع الميت على الأعناق.
عمدۃ الفقہ (2/522) میں ہے:
’’مسبوق کو اپنی بقیہ تکبیریں کہنے میں اگر یہ خوف ہو کہ دعائیں پڑھنے میں اتنا وقت لگے گا کہ لوگ جنازہ کو کندھے پر اٹھا لیں گے تو صرف تکبیریں کہدے اور دعائیں چھوڑے، اور جب تک جنازہ کندھوں پر نہ رکھا جائے اس وقت تک تکبیریں نہ چھوڑے بلکہ پوری کرے اس کے بعد بھی اگر کوئی تکبیر رہ جائے تو چھوڑ دے۔ یہی ظاہر الروایت ہے اور ایک روایت یہ ہے کہ جب تک جنازہ ہاتھوں پر زمین سے قریب ہے تب تک کہے جب دور ہو جائے اگرچہ کندھوں پر نہیں رکھا گیا تو منقطع کر دے۔‘‘
© Copyright 2024, All Rights Reserved