• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زبانی ایحاب وقبول کے بغیر تحریری نکاح کی شرعی حیثیت

استفتاء

میرا نام ***** ہے، میری شادی 21 نومبر 2018 کو ***** سے طے پائی، شادی کی پہلی رات میری بیوی نے مجھے بتایا کہ وہ کسی کے ساتھ محبت کرتی ہے اور میرے ساتھ نہیں رہ سکتی، جنوری میں میری بیوی کو کسی نے گولی ماری ،  تفتیش سے پتہ چلا کہ گولی مارنے والا اس کا سابقہ شوہر ہے، اور یہ اس کے نکاح میں ہے، یہ بات اس لڑکی کے والدین بھی جانتے تھے لیکن مجھے لاعلم رکھا گیا،جب گولی لگنے کا واقعہ ہوا تو آہستہ آہستہ چیزیں میرے سامنے آئیں، پھر میرے ساس سسر نے اس شخص پر دباؤ ڈالا اور اس سے خلع لے لی جو کہ یونین کونسل کے سرٹیفکیٹ کے مطابق یکم جون 2019 کو ہوئی،اس لڑکی سے میرا دو ماہ کا بیٹا بھی ہے جس کی پیدائش 25 مارچ 2020 کو ہوئی، وہ میرے گھر میں میرے بچے کے ساتھ رہ رہی ہے لیکن سات آٹھ ماہ سے ہمارا ازدواجی تعلق نہیں ہے۔

اس ساری صورتحال میں :

(1) لڑکی کے پہلے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

(2) دینی لحاظ سے میرے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

(3) میری اولاد کا نسب ثابت ہے یا نہیں؟

(4) اس لڑکی پر کوئی شرعی حد یا کفارہ واجب ہے یا نہیں؟

(5) اگر میں اپنی بیوی کو نہ رکھنا چاہوں تو شریعت کا کیا حکم ہے؟

(6) اگر بیوی کو رکھنا چاہوں تو شرعی اعتبار سے مجھے کیا کرنا ہوگا؟

وضاحت مطلوب ہے:

(1)لڑکی کے پہلے نکاح کی تفصیل بتائیں

(2) پہلے نکاح کے بعد رخصتی ہوئی تھی یا نہیں؟

(3) لڑکی کے والدین نے کس طرح لڑکے پر دباؤ ڈال کر خلع لیا اس کی تفصیل بتائیں۔

جواب وضاحت:

(1) لڑکی کہتی ہے لڑکے نے دھوکے سے نکاح نامے پر مجھ سے دستخط کروائے، کار میں ہم تین لوگ تھے،(1) لڑکا،(2) اس کا کزن اور تیسری میں،اس نے کہا ایک لڑکی نے مجھ پر کیس کیا ہے اگر تم اس نکاح نامے پر دستخط کردو تو میرا مسئلہ حل ہو جائے گا اس کے بعد میں یہ نکاح نامہ ضائع کردوں گا، میں نے اس نکاح نامے پر دستخط کر دیے، ایجاب و قبول نہیں ہوا تھا۔ پھر اس لڑکے نے نکاح نامے کی رجسٹریشن کروا لی اور ہمیں بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔

(2)رخصتی نہیں ہوئی تھی۔

(3) جب لڑکے نے لڑکی کو گولی ماری تو لڑکی کے والدین نے اس پر کیس کر دیا،اور پولیس کے ذریعے سے دباؤ ڈالا کہ اگر تم خلع نامے پر دستخط کر دو تو ہم کیس واپس لے لیں گے تو لڑکے نے دستخط کر دیے، لڑکی والوں کے پاس صرف یونین کونسل کا طلاق کا سرٹیفکیٹ ہے، پولیس نے لڑکے سے کن کاغذات پر دستخط کروائے اور کیسے کروائے یہ ان کو معلوم نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) مذکورہ صورت میں پہلے نکاح میں چونکہ لڑکی اور لڑکے نے صرف دستخط کئے تھے، زبان سے ایجاب و قبول نہیں کیا تھا نیز اس میں گواہ بھی پورے نہیں تھے اس لیے پہلا نکاح درست نہیں ہوا۔

فتاوی شامی (4/83) میں ہے:

(قوله: ولا بكتابة حاضر) فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد بحر والأظهر أن يقول فقالت قبلت إلخ إذ الكتابة من الطرفين بلا قول لا تكفي ولو في الغيبة، تأمل.

در مختار (98/4) میں ہے:

(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح

درمختار (4/266) میں ہے:

(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود.

(2)چونکہ پہلا نکاح درست نہیں ہوا تھا اس لیے آپ کا نکاح درست ہو گیا تھا اور اب بھی قائم ہے۔

بدائع الصنائع (2/548) میں ہے:

ومنها أن لا تكون منكوحة الغير، لقوله تعالى: {والمحصنات من النساء} [النساء: ٢٤] معطوفا على قوله عز وجل: {حرمت عليكم أمهاتكم} [النساء: ٢٣] إلى قوله: {والمحصنات من النساء} [النساء: ٢٤] وهن ذوات الأزواج.

(3) آپ کے بچے کا نسب آپ سے ثابت ہے۔

عالمگیری (1/536) میں ہے:

قال أصحابنا: لثبوت النسب ثلاث مراتب (الأولى) النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد: والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير دعوة ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفي باللعان، فإن كانا ممن لا لعان بينهما لا ينتفي نسب الولد كذا في المحيط.

(4) لڑکی پر کوئی حد یا کفارہ واجب نہیں ہے۔

(5) اگر آپ کی بیوی اپنے اس عمل سے توبہ کر چکی ہے  تو اسے طلاق دینا ضروری نہیں اور اگر اس عمل سے توبہ نہیں کی تو پھر طلاق دینا بہتر ہے لیکن ضروری نہیں۔

درمختار (141/4) میں ہے :

 وفي آخر حظر المجتبى لا يجب على الزوج تطليق الفاجرة

اعلاء السنن (11/137) میں ہے:

و عند تفريط المرأة فى حقوق الله تعالى الواجبة عليها مثل الصلاة و نحوها أو تكون غير عفيفة أو خارجة إلى المخالعة و الشقاق مندوب إليه.

(6) اگر آپ اپنی بیوی کو رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں،اس کیلئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کا نکاح قائم ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved