• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصہ میں نفس طلاق کا علم ہونے اور عدد طلاق کا علم نہ ہونے کی صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہونگی؟

استفتاء

میرا نام *** اور میرے شوہر کا نام*** ہے،ہماری تین بیٹیاں ہیں ،6سے 7 دن سے شوہر کو سخت بخار تھا ،پہلے ملیریا اور پھر ڈینگی جس صورت میں ان کی تیمارداری میں مجھ سے کچھ غلطی ہوگئی اور انھوں نے انتہائی غصہ میں مجھے تین دفعہ طلاق دی اور پھر تین دفعہ کہا کہ تم فارغ ہو اور  جب امی لوگ مجھے گھر لے آئیں ،میرے میکے ،تو ان کی کال آگئی اور کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں طلاق نہیں دی اور معافی مانگی ،آپ سے التماس ہے کہ ہمارے لیے رجوع کا کوئی حل نکالیں ۔

تنقیح:شوہر کی حالت پچھلے کئی دنوں سے خراب تھی ،چاول بنانے لگی تو سنک میں الٹادئیے،کبھی غصہ میں آکر مین سوئچ بند کردیتے،دودن پہلے  موبائل توڑدیا تھا  ،پہلے بھی غصہ میں چیزیں توڑدیتا ہے،جب یہ واقعہ ہو ا تو اس وقت بیوی نے والدہ کو کال  کی تھی  ،اس سے پہلے شوہر کے والدین نے کوئی بات کی تھی تو میاں بیوی میں لڑائی ہوگئی،شوہر نے کہا اچھا مجھے کھانے کیلئے دو ،لیکن وہ کچھ نہیں دے رہی تھی شوہر کو غصہ آگیا تو پھر شوہر نے ساس کو فون کیا تو اس نے شوہر کا حال تک نہ پوچھا  اور کہا کہ بیٹی سے بات کرواؤ،شوہر کو شدید غصہ  آگیا ،پھر بقول شوہر اسے کچھ پتا نہ چلا کہ کیا کہا،اتنا یاد ہے کہ کچھ کہا تھا لیکن کتنی دفعہ کہا تھا یہ کچھ پتا نہ چلا شدید ڈینگی بخار تھا،یعنی نفس طلاق کا تو  شوہر کو یاد ہے ،لیکن کتنی دفعہ کہا کہ طلاق ہے یہ یاد نہیں ،اس کے بعد پھر کہا کہ تو فارغ ہے یہ بھی یاد ہے  لیکن  یہ لفظ کتنی مرتبہ کہا یہ یاد نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوگئی ہے لہذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر کو یہ معلوم نہیں  کہ اس  نےطلاق کا لفظ  کتنی مرتبہ کہا ہے لیکن یہ معلوم ہے کہ طلاق کا لفظ کہا ضرور ہے اور جب غصہ میں اتنامعلوم ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے چاہے  یہ معلو م نہ ہو  کہ کتنی دفع دی ہے۔

فتاوی شامی (4/439)میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved