- فتوی نمبر: 19-179
- تاریخ: 24 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
بیوی کا بیان:
جناب مولانا صاحب! آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ میں ایک فتویٰ لینا چاہتی ہوں جو کہ میری ازدواجی زندگی سے متعلق ہے۔
میری شادی کو پچیس سال گزر چکے ہیں اور میرے چار بچے ہیں۔ میرے شوہر نے ساری زندگی میرے ساتھ لڑائی جھگڑوں میں ہی گزار دی۔ میں اپنے ماں باپ کی عزت کے لئے ہمیشہ سمجھوتا کرکے اس کے ساتھ رہتی رہی لیکن آج سے چار سال پہلے وہ لڑ جھگڑ کر مجھے اور میرے بچوں کو چھوڑ کر چلا گیا تھا اور اس لڑائی میں اس نے مجھے ’’دواں تینوں طلاق؟، لینی اے توں طلاق؟ دینا فیر میں تینوں طلاق‘‘ کہا تھا۔ ایک سال میں بہت دفعہ اس نے مجھے یہ الفاظ بولے ہیں۔ کبھی میرے بچوں کے سامنے کہتا اور کبھی اکیلے میں لیکن یہ کبھی نہیں کہا کہ میں نے طلاق دی۔
میرے شوہر نے مجھے بہت اذیتیں دی ہیں مارتا تھا برا بھلا کہتا تھا، خرچہ کبھی نہیں دیتا تھا گھر کا کرایہ بھی میں خود دیتی تھی۔ میں نے تنگ آکر عدالت سے خلع بھی لے لیا تھاجس کی کاپی میں نے ان کو بھی بھیج دی تھی۔ (خلع کے فیصلے کی کاپی ساتھ لف ہے)
جب میں نے خلع کا کیس کیا تھا تو شوہر کو بھی بتایا تھا اور پہلا نوٹس تو میں نے خود اپنے شوہر کو دیا تھا اور باقی کی بھی اطلاع کی تھی۔ لیکن شوہر ایک دفعہ بھی عدالت میں حاضر نہ ہوا۔بالآخر میرے حق میں فیصلہ ہوگیا۔
بھائی خالد (شوہر کے بھائی) نے مجھے بتایا تھا کہ میرے شوہر نے ہسپتال میں کہا تھا کہ میں طلاق دے کر آگیا تھا۔ یہ بات سارے خاندان میں مشہور ہے۔
اب چار سال بعد وہ واپس گھر آنا چاہتا ہے تو کیا وہ اب میرا شوہر ہے کہ نہیں؟ ہمارا رشتہ ان الفاظ کے بعد قائم ہے کہ نہیں؟ آپ مجھے اس بات کا شرعی فتویٰ دے دیں۔ان چار سالوں میں ہماری بات چیت کافی دفعہ ہوئی ہے لیکن ہمارا ازدواجی رشتہ قائم نہیں ہوا۔
شوہر کے بھائی کا بیان:
میرے بھائی نے میرے سامنے کبھی اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی لیکن ایک دفعہ میں اپنے بھائی احمد ندیم کو علاج کیلئے نفسیاتی ہسپتال میں علاج کیلئے لے گیا تو انہوں نے بھائی سے مختلف سوالات کئے تھے نام پتہ وغیرہ بھی پوچھا تھا جب انہوں نے بیوی کے بارے میں پوچھا تھا تو بھائی نے کہا تھا کہ میں طلاق دے کر آگیا تھا۔ (30 اپریل 2020کو یہ بات کہی تھی اور نفسیاتی ہسپتال کے انٹرویو کی کاپی ساتھ لف ہے) ہسپتال والوں نے کہا تھا کہ یہ ذہنی طور پر ٹھیک ہیں۔
چار سال پہلے جب بیوی کے ساتھ رہتے تو پراپرٹی کا کام تھا اس کے بعد ایک اور جگہ جاب بھی کرتے رہے لیکن جب بیوی کو چھوڑ کر آئے تو سب کچھ چھوڑ دیا۔
شوہر *****کا بیان:
ایک دفعہ تقریباً 20 سال پہلے طلاق دی تھی پھر مولوی صاحب کے مشورہ سے حلالہ کے بعد دوبارہ نکاح کیا تھا اس کے بعد کبھی طلاق نہیں دی۔ اتنا کہا تھا کہ ’’میں تمہیں فارغ کردوں گا‘‘۔ نفسیاتی ہسپتال میں ان کے سوالات سے تنگ آگیا تھا میں نے کہا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ طلاق ہوگئی ہے۔
(ہسپتال کے انٹرویو کی کاپی میں شوہرکا بیان اس طرح لکھا ہوا ہے:
’’دوسری بیوی سے ہمیشہ لڑائی ہی رہی تو تنگ آکر اس نے 5 سال پہلے طلاق لے لی۔ کورٹ کے ذریعے طلاق ہوئی تھی۔ کافی عرصہ سے بیوی طلاق مانگتی رہی‘‘)
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں بیوی نے عدالت سے جب خلع لیا تھا تو اس کی وجہ سے نکاح ختم ہوگیا تھا۔ اب اگر دوبارہ میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔
توجیہ: سوال میں مذکور طلاق کے الفاظ جو اردو میں اس طرح ہیں کہ ’’دوں میں تجھے طلاق؟ لینی ہے تم نے طلاق؟ دیتا ہوں پھر میں تجھے طلاق‘‘ ان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ ان الفاظ سے شوہر طلاق واقع نہیں کررہا بلکہ مستقبل میں طلاق دینے کے بارے میں پیشکس کررہا ہے۔ خصوصا آخری الفاظ کہ ’’دیتا ہوں پھر میں تجھے طلاق‘‘ میں بھی سیاق سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ شوہر نے طلاق واقع نہیں کی بلکہ یہ کہا ہے کہ ٹھہر جاؤ میں ابھی تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ اور ایسے الفاظ سے بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
البحر الرائق (3/438) میں ہے:
وليس منه أطلقك بصيغة المضارع إلا إذا غلب استعماله في الحال كما في فتح القدير
اس کے بعد عورت نے عدالت سے جو خلع حاصل کیا تھا اس کیس میں فسخ نکاح کی معتبر بنیاد خرچہ نہ دینا اور خرچہ نہ دینے کی بنیاد پر تنسیخِ نکاح کی دیگر شرائط بھی پائی جارہی ہیں جو درج ذیل ہیں:
(1) : شوہر نان نفقہ پر قادر ہو،
(2): شوہر نان نفقہ نہ دیتا ہو،
(3): بیوی نے اپنا نان نفقہ معاف نہ کیا ہو،
(4): بیوی کی طرف سے کوئی ایسا نشوز (نافرمانی) نہ پایا گیا ہو جس کی وجہ سے وہ نفقہ کی حقدار نہ رہے،
(5): بیوی نے خرچہ نہ دینے کی بنیاد پر نکاح کو فسخ کرنے کی درخواست دی ہو،
(6):عدالت نے واقعہ کی تحقیق کرنے کے لئے شوہر کو عدالت میں بلایا ہو ،
(7): عدالت کے شوہر کو بار بار نوٹس جاری کرنے کے باوجود شوہر یا اس کے وکیل کے عدالت میں حاضر نہ ہونے کی صورت میں عدالت نے شوہر کے خلاف فیصلہ کردیا ہو۔ (ماخوذ ازفتاویٰ عثمانی جلد۲، صفحہ۴۶۲)
فتاویٰ عثمانی (462,463/4) میں ہے:
’’اگر کسی فیصلے میں بنیادِ فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو، یعنی ’’تعنت‘‘ ثابت ہورہا ہو البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یک طرفہ فیصلہ درست نہ ہوگا تاہم فسخِ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جاے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہوگیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کرسکتی ہے‘‘۔۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved