- فتوی نمبر: 27-335
- تاریخ: 02 جولائی 2022
استفتاء
** کے والد نے اس کے بچپن میں 24 مرلے پلاٹ خریدا 2 مرلے اضافی جگہ پر بے نامی یا شاملات سمجھ کر قبضہ کرلیا کئی سالوں بعد پتہ چلاکہ یہ دو مرلے قبرستان کی زمین تھی ۔** نے والد صاحب کو سمجھایا کہ یہ دو مرلے چھوڑدیں لیکن وہ نہ مانے ،حال ہی میں سارا پلاٹ فروخت کردیا گیا بمعہ دو مرلے قبرستان کے اور خریدار نے قبضہ بھی کرلیا ہے ،اب اگر**دو مرلے کی قیمت قبرستان کی انتظامیہ کو دیدے تو ناجائز قبضہ کرنے کے گناہ سے بچ جائے گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں قبرستان کی دو مرلہ جگہ کی قیمت انتظامیہ کو دینے سے** کا والد برئ الذمۃ نہیں ہوگا بلکہ اس جگہ کی قیمت خرید ار کوواپس کرکےزمین انتظامیہ کے حوالے کرنا ضروری ہے۔
توجیہ: جب کوئی چیز وقف کردی جائے تو چونکہ وہ چیز بندوں کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اس لئے اس چیز کو بیچنا درست نہیں ہوتا مذکورہ صورت میں چونکہ زمین قبرستان کے لئے وقف کی گئی تھی لہٰذ ا قبضہ کرنے سے مذکورہ زمین سائل کے والد کی ملکیت نہیں بنی اور بیچنے سے خریدار کی ملکیت نہیں بنی، لہٰذا یہ زمین قبرستان کی انتظامیہ کو واپس کرنا ضروری ہے۔
فتح القدیر(6/191) میں ہے:
والأصح: أنه جائز عنده، إلا أنه غير لازم بمنزلة العارية، وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد، فيلزم، ولا يباع، ولا يوهب، ولا يورث اللفظ ينتظمهما.
درمختار مع تنويرالابصار(6/664) میں ہے:
قولهم: شرط الواقف كنص الشارع: أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به، فيجب عليه خدمة وظيفته أو تركها لمن يعمل، وإلا أثم، لا سيما فيما يلزم بتركها تعطيل الكل.
ملتقی الابحر مع مجمع الانھر(2/580) میں ہے:
واذا صح الوقف فلا يملك ولا يملك.
فتاوی محمودیہ( 15/368) میں ہے:
سوال: ہمارے بزرگوں کا قدیم قبرستان ہے اس میں ایک شبرانی فقیر کو بطورِ نگران رکھ دیا تھا اس نے قبرستان کی زمین ایک دوسرے شخص کو فروخت کردی اس کے لئے کیا حکم ہے؟
جواب: جب کہ وہ فقیر محض نگران کی حیثیت سے رہتا تھا مالک نہیں تھا تو اس کا اس زمین کو مالک بن کر فروخت کرنا جائز نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved