- فتوی نمبر: 30-153
- تاریخ: 29 نومبر 2023
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
اگر کوئی شخص دورانِ گفتگو یہ بات کرے کہ اولاد ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان غلط بات کو غلط سمجھتے ہوئے بھی قبول کرلیتا ہے اور پھر اس پر بطور دلیل یہ کہے کہ قرآن پاک میں بھی ہے کہ تمہارا مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہے تو کیا اس شخص کا یہ بات کرنا اور اس پر یہ دلیل پیش کرنا ٹھیک ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ بات درست ہے ۔
معارف القرآن (سورۃ الانفال: 48) میں ہے:
واعلموا أنما أموالكم وأولادكم فتنة یعنی یہ بات سمجھ رکھو کہ تمھارے مال و اولاد تمھارے لیے فتنہ ہیں۔ فتنہ کے معنی امتحان کے بھی آتے ہیں اور عذاب کے بھی اور ایسی چیزوں کو بھی فتنہ کہا جاتا ہے جو عذاب کا سبب بنیں ۔ قرآن کریم کی مختلف آیتوںمیں ان تینوں معنی کے لیے لفظ فتنہ استعمال ہوا ہے۔ یہاں تینوں معنی کی گنجائش ہے بعض اوقات مال و اولاد خود بھی انسان کے لیے دنیا ہی میں وبالِ جان بن جاتے ہیں اور ان کے سبب غفلت و معصیت میں مبتلا ہوکر سببِ عذاب بن جانا تو بالکل ظاہر ہے۔ اول یہ کہ مال و اولاد کے ذریعہ تمھارا امتحان لینامقصود ہے کہ یہ چیزیں ہمارے انعامات ہیں تم انعام لے کر شکرگزار اور اطاعت شعار بنتے ہو یا ناشکرے اور نافرمان دوسرےاور تیسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ مال اور اولاد کی محبت میں مبتلا ہوکر اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا تو یہی مال و اولاد تمھارے لیے عذاب بن جائیں گے۔ بعض اوقات تو دنیا ہی میں یہ چیزیں انسان کو سخت مصیبتوں میں مبتلا کردیتی ہیں اور دنیا ہی میں مال و اولاد کو وہ عذاب محسوس کرنے لگتے ہیں ورنہ یہ تو لازمی ہے کہ دنیا میں جو مال اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف کمایا گیا یا خرچ کیا وہ مال ہی آخرت میں اس کے لیے سانپ اور بچھو اور آگ میں داغ دینے کا ذریعہ بن جائے گا جیسا کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اور بے شمار روایاتِ حدیث میں اس کی تصریحات موجود ہیں اور تیسرے معنی یہ کہ یہ چیزیں سبب عذاب بن جائیں یہ تو ظاہر ہی ہے کہ جب یہ چیزیں اللہ تعالیٰ سے غفلت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا سبب بنیں تو عذاب کا سبب بن گئیں۔-
تفسیر ابن کثیر (سورۃ الانفال: 48) میں ہے:
وقوله تعالى: ﴿واعلموا أنما أموالكم وأولادكم فتنة﴾ أي: اختبار وامتحان منه لكم؛ إذ أعطاكموها ليعلم أتشكرونه عليها وتطيعونه(١٢) فيها، أو تشتغلون بها عنه، وتعتاضون بها منه؟ كما قال تعالى: ﴿إنما أموالكم وأولادكم فتنة والله عنده أجر عظيم﴾ [التغابن: ١٥] ،وقال: ﴿ونبلوكم بالشر والخير فتنة﴾ [الأنبياء: ٣٥] ،وقال تعالى: ﴿يا أيها الذين آمنوا لا تلهكم أموالكم ولا أولادكم عن ذكر الله ومن يفعل ذلك فأولئك هم الخاسرون﴾ [المنافقون: ٩] ،وقال تعالى: ﴿يا أيها الذين آمنوا إن من أزواجكم وأولادكم عدوا لكم فاحذروهم﴾ الآية [التغابن: ١٤]
تفسیر آلوسی (سورۃ الانفال :48) میں ہے:
﴿واعلموا أنما أموالكم وأولادكم فتنة﴾ لأنها سبب الوقوع في الاسم والعقاب، أو محنة من الله عز وجل يختبركم بها فلا يحملنكم حبها على الخيانة كأبي لبابة، ولعل الفتنة في المال أكثر منها في الولد، ولذا قدمت الأموال على الأولاد، ولا يخفى ما في الأخبار من المبالغة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved