• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کئی بار نماز توڑنے کا حکم

استفتاء

1۔اگر کوئی سنت مؤکدہ شروع کرے پھر درمیان میں توڑ دے ، پھر شروع کرے اور بلا عذر پھر توڑ دے کہ اس میں دھیان نہیں تھا اب  صحیح طریقے سے دوبارہ پڑھنی چاہیے، اس طرح بہت دفعہ توڑ توڑ کر پڑھے تو اس  کو ایک ہی بار  پوری کرنی ہوگی یا جتنی دفعہ توڑی ہے سب  کا اعادہ کرنا ہوگا؟

2۔اسی طرح نفل نماز کا بھی بتادیں کہ  درمیان میں توڑ دے پھر دوبارہ شروع کرے پھر توڑ دے پھر شروع کرے تو کوئی بہت بار توڑنے کے بعد ایک دو نفل پورے  ہوئے تو جتنی دفعہ توڑی ہیں ان  سب کا اعادہ کرنا ہوگا یا جن دو نفل کی شروع میں نیت کی تھی صرف ان کا  پورا کرنا ہوگا؟

وضاحت مطلوب ہے : کیا ہر دفعہ توڑنے کے بعد اعادہ کی صورت میں توڑی نماز (سنت موکدہ اور نفل نماز ) کی نیت کی تھی یا از سرے نو نماز پڑھنے کی نیت کی تھی ؟

جواب وضاحت : ہر دفعہ اعادہ کرنے میں توڑی ہوئی نماز کی نیت کی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1،2- مذکورہ دونوں صورتوں میں ایک ہی دفعہ نماز پوری کرنا کافی  ہوگا جتنی دفعہ توڑی ہے اتنی دفعہ کا اعادہ کرنا ضروری نہیں۔

نوٹ: صرف دھیان نہ جمنے کی وجہ سے نماز توڑنا جائز نہیں اگر دھیان جمانے کی مشق ہی کرنی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو نماز شروع کی ہے اسے پورا کیا جائے اور اس کے بعد جب تک دھیان نہ جمے با ر بار نماز پڑھتا  رہے۔

البحر الرائق (2/64)میں ہے:

(قوله وقضى ركعتين لو نوى أربعا وأفسده بعد القعود الأول أو قبله) يعني فيلزمه الشفع الثاني إن أفسده بعد القعود الأول والشروع في الثاني والشفع الأول فقط إن أفسده قبل القعود بناء على أنه لا يلزمه بتحريمة النفل ‌أكثر ‌من ‌الركعتين وإن نوى أكثر منهما وهو ظاهر الرواية عن أصحابنا إلا بعارض الاقتداء وصحح في الخلاصة رجوع أبي يوسف إلى قولهما فهو باتفاقهم لأن الوجوب بسبب الشروع لم يثبت وضعا بل لصيانة المؤدي وهو حاصل بتمام الركعتين فلا تلزم الزيادة بلا ضرورة قيد بقوله نوى أربعا لأنه لو شرع في النفل ولم ينو لا يلزمه إلا ركعتان اتفاقا

شامی (2/29) ميں ہے:

(قوله ولزم نفل إلخ) أي ‌لزم ‌المضي ‌فيه، حتى إذا أفسده لزم قضاؤه أي قضاء ركعتين، وإن نوى أكثر على ما يأتي .

الدر المختار مع ردالمحتار(2/31) میں ہے:

(وقضى ركعتين ‌لو ‌نوى ‌أربعا) غير مؤكدة على اختيار الحلبي وغيره

(قوله على اختيار الحلبي وغيره) حيث قال في شرح المنية: ‌أما ‌إذا ‌شرع ‌في ‌الأربع التي قبل الظهر وقبل الجمعة أو بعدها ثم قطع في الشفع الأول أو الثاني يلزمه قضاء الأربع باتفاق لأنها لم تشرع إلا بتسليمة واحدة، فإنها لم تنقل عنه – عليه الصلاة والسلام – إلا كذلك

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (4/102) میں ہے:

سوال:***کو نماز میں شک ہوا کہ میرا کپڑا پاک نہیں اسی وقت نماز چھوڑ کر ازسر نو کپڑے بدل کر اور چونکہ بیمار تھا اس لیے تیمم کر کے نماز پڑھنا شروع کیا۔ پھر نماز میں اس کو اپنی تیمم کے عدم درستگی یا تقاطر بول یا عدم طہارت کا شبہ یا وسوسہ پیدا ہوا حالانکہ اس کا مزاج شکی ہے اور اس کو اکثر وسوسہ اور شبہات ہوا کرتے ہیں کہ لیکن دوبارہ شبہ ہونے پر بوجہ ہنسنے لوگوں کے اس نے بلا قراءۃ اور تکبیر و تسبیح و التحیات و درود کے نماز تمام کی اور قیام اور قعود وغیرہ سے قیام صلوۃ کی نیت نہیں کی اور سنت کی جگہ پر بھی اسی طرح بلانیت اور بدون قرات وغیرہ کی صرف قیام قعود وغیرہ کر لیا۔ بعد کو وہ اپنے اس فعل پر سخت نادم وپشیمان ہوا اور توبہ کی اور اس نماز کا اعادہ  کر لیا تو وہ گنہگار ہوگا یا  نہ؟

جواب :ایسے وساوس اور شکوک سے نماز میں کچھ خلل نہیں آتا ،***کو نماز پوری کر لینی چاہیے تھی یہ اس کے جہل اور ناواقفیت کی وجہ سے ہوا کہ قراءت وغیرہ چھوڑ کر نماز کو فاسد کیا۔ بہر حال جب اس نماز کا اعادہ کر لیا تو نماز ہو گئی اور چونکہ اس نے غلطی سے نماز کو فاسد کیا اور قراءت وغیرہ چھوڑی  اور پھر نماز کا اعادہ  کر لیا اس لیے  جو کچھ گناہ  ہوا تھا وہ معاف ہو گیا آئندہ ایسا نہ کرے۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (4/102) میں ہے:

سوال: اگر کسی شخص کے مزاج میں شکوک و وساوس کثرت سے پیدا ہوں تو اس کی دفعیہ کی کون سی صورت ہے؟

جواب :وساوس و شکوک کی یہی صورت ہے کہ  اس کو وسوسہ شیطانی سمجھ کر اس کی طرف التفات نہ کرے اور اس پر عمل نہ کرے اور نماز پوری کرے احادیث میں اس کا یہی علاج وارد ہوا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved