• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ہنڈا کمپنی کی پیکنگ میں دوسری کمپنی کا مال ڈال کر بیچنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  مفتی صاحب آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا تھا کہ  میں میکلورڈ روڈ پر موٹر سائیکل کی مارکیٹ میں کام کرتا ہوں ،ہمارا موٹر سائیکل سپیئر پارٹس کا کام ہے۔ ہمارا مال  اب سندھ کے علاقوں میں بھی جاتا ہے، ہماری ایک آئٹم ہے "شاک سپرنگ  "  جسے ہم سندھ کے علاقے سکھر میں  اپنے کسٹمر کو بھیجتے ہیں ، ہمارے کسٹمر کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ ہم یہ آئٹم ہنڈا  کی پیکنگ میں ڈال کر بھیجیں اور  وہ کسٹمر اس آئٹم کو اپنے علاقے  (سندھ ) میں  فروخت کرتے ہیں ، جبکہ ہنڈا کمپنی کی طرف سے  ان کی پیکنگ اس طرح استعمال کرنے پر پابندی ہے، کیا  اس طرح کسٹمر کی ڈیمانڈ پر ہنڈا  کی پیکنگ میں مال بھیجنا  جائز ہے؟

نوٹ:ہم پیکنگ کے بغیر جس ریٹ پر مال دیتے ہیں پیکنگ کے ساتھ بھی اسی ریٹ پر مال دیتے ہیں اور جو ہنڈا کی پیکنگ لگاتے ہیں اس کے  پیسے ہم کسٹمر سے لیتے ہیں ، دوکان دار کسٹمر کو آگاہ کرتا ہے کہ یہ اصل ہنڈا نہیں ہے صرف اس کی پیکنگ ہے  اور کسٹمر کوعام طور پر خود معلوم بھی  ہوتا ہے کہ پیکنگ ہنڈا کی ہے مال کسی اور کمپنی کا ہے، نیز اصل ہنڈا سے ریٹ میں فرق بھی ہوتا ہے  ۔اس صورت میں دکاندار کو بیچنے کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ آپ جس دکاندار کو  یہ سامان  بیچ رہے ہیں وہ  یہ سامان  اپنے گاہک کو اصل ہنڈا کا کہہ کر بیچے گا یا اس سے  اگلا خریدار اس سامان کو اصل ہنڈا کا کہہ کر بیچے گا تو آپ کے لیے مذکورہ سامان ہنڈا کی پیکنگ میں کرکے دینا جائز نہیں اور اگر آپ کو یہ معلوم نہیں کہ آپ سے خریدنے والا یا اس سے آگے خریدنے والا اپنے گاہک کو مذکورہ سامان ہنڈا کا کہہ کر  بیچے گا یا نہیں؟ تو اس صورت میں اگرچہ آپ کے لیے یہ سامان ہنڈا کی پیکنگ میں کرکے دینا جائز ہے تاہم بہتر نہیں اور اگر آپ کو یقینی طور پر معلوم ہے کہ آپ سے خریدنے والا اور اس سے آگے خریدنے والا  اپنے اپنے گاہک کو یہ بتا کر یہ سامان فروخت کرے گا کہ یہ سامان اصل ہنڈا کا نہیں تو  یہ صورت بلاشبہ جائز ہے۔ تاہم ایسا معلوم  ہونا ممکن نہیں ہوتا کہ نہ آپ سے خریدنے والا کسی گاہک کو دھوکہ دے اور نہ اس سے آگے خریدنے والا کسی کو آگے دھوکہ دے گا۔

ہندیہ (4/470) میں ہے:

ويجوز بيع البربط والطبل والمزمار والدف والنرد وأشباه ذلك في قول أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – وعندهما لا يجوز بيع هذه الأشياء قبل الكسر ذكر المسألة في إجارات الأصل من غير تفصيل وذكر في السير الكبير تفصيلا على قولهما فقال إن باعها ممن لم يستعملها ولا يبيع هذا المشتري ممن يستعملها فلا بأس ببيعها قبل الكسر فإن باعها ممن يستعملها أو يبيعها هذا المشتري ممن يستعملها لا يجوز بيعها قبل الكسر قال شيخ الإسلام – رحمه الله تعالى – ما ذكر من الإطلاق في الأصل محمول على التفصيل المذكور في السير كذا في الذخيرة وإن أتلفها إنسان فإن كان الإتلاف بأمر القاضي لا يضمن وإن لم يكن بأمر القاضي فكذلك في قول أبي يوسف ومحمد – رحمهما الله تعالى – كذا في فتاوى قاضي خان والفتوى على قولهما كذا في التهذيب

شرح مختصر الطحاوی   للجصاص (6/ 391) میں ہے:

قال: (ولا بأس ببيع ‌العصير من كل أحد: خاف البائع أن يتخذه المشتري خمرًا، أو أمن ذلك) وذلك لأن ‌العصير مباح جائز التصرف فيه، وإنما المأثم على من يتخذه خمرًا لشربها، فأما البائع فلا شيء عليه في ذلك، كبيع الحرير والحلي من الرجال: فهو جائز مباح وإن لم يأمن أن يلبسه الرجل، أو يستعمله فيما لا يجوز.فإن قيل: فقد كرهتم بيع السلاح في الفتنة، وفي عساكر الفتنة، فهلا كان كذلك بيع ‌العصير ممن يتخذه خمرًا؟قيل له: الفصل بينهما: أن السلاح على هيئته هذه يستعان به على القتال، فإذا كان زمان الفتنة: كره بيعه ممن يستعين به عليها، كما يكره إعطاء صاحب الفتنة من الخوارج وأهل الحرب، وأما ‌العصير فلا بأس بالانتفاع به على هيئته كيف شاء صاحبه، وإنما المحظور منه بعد استحالته خمرًا، وليست هي المعقود عليها في الحال.فإن قيل: فينبغي أن يكره بيع الحرير والحلي من الرجال؛ لأنهما على هيئتهما ينتفع بهما في الجهة المحظورة.قيل له: لم نقل إن بيع السلاح مكروه، لأجل إمكان الانتفاع به على هذه الهيئة في الوجه المحظور، دون أن تكون الحال دالة عليه، وهو ان يكون في عسكر الفتنة، أو زمان الفتنة مع ما وصفنا من حاله.وأما الحرير والحلي، فليس لهما حال ظاهرة يمنع ببيعهما وإن كان الانتفاع بهما ممكنًا على الوجه المحظور، ۔۔۔۔۔۔۔۔ وعلى أنا ننهى أيضًا عن عصير العنب للخمر، ومن فعل ذلك فهو عاصر، وإنما مسألتنا فيمن باع ولم يعصره، وإنما خاف أن يعصره المشتري، فلا يكون البائع منهيًا عنه لأجل فعلٍ يحدث بعده من غيرها

امدادالفتاویٰ(3/133)میں ہے:

سوال (۱۷۷۷) : قدیم ۳/ ۱۳۳- گھی، عنبر، مشک وغیرہ مصنوعی تیار کیا جاوے اور یہ کہہ کر یہ اصلی نہیں مصنوعی ہے، کم قیمت پر اس کو فروخت کیا جاوے، کیا یہ بھی دھوکا و خداع و ناجائز ہے یانہیں ؟

الجواب:یہ دھوکا  نہیں ہے جائز ہے،  البتہ ورع کے خلاف اس لیے ہے کہ مشتری سے خداع کا احتمال ہے، اور اس کی بیع ایک درجہ میں اس کا سبب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved