• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اسمگلنگ کے مال کو حکومت سے خریدنے کا حکم

استفتاء

***اسمگللنگ کا کام کرتا ہے ،ایک دفعہ حکومت نےاس  کا مال پکڑ لیا ، ***نے مال کی   کوئی خبر بھی نہیں  لی ، حکومت ایک وقت  تک انتظار کرتی ہے اس کے بعد حکومت اس مال کو نیلام کردیتی ہے ، بعد میں   ***حکو مت کو کہتا ہے کہ اس مال کا ٹیکس میں جمع کروں گا   یہ مال مجھے دے دیں ، حکومت ا س پر راضی ہوجاتی ہے اور وہ مال  ***کو دے دیتی ہے۔***کے لیے یہ معا ملہ کرنا کیسا ہے ؟ اور اس کا منافع حلال ہے  یا حرام  ؟ جبکہ  ***اور ***ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت کی گنجائش ہے اور نفع بھی حلال ہے۔

توجیہ:  اول تو ایسی صورتوں میں جب اسمگلر اپنی چیز کا پیچھا نہیں کرتا تو عرفاً اس کی طرف سے اس چیز کو بیچنے کی اجازت سمجھی جاتی ہے اور اگر اس کی اجازت کا اعتبار نہ کیا جائے تو حکومت اپنا دین (وہ ٹیکس جو اسمگلر نے مذکورہ مال  اسمگلنگ کر کے بچایا ہے اسے ) وصول کرنے کے لیے اس کی اجازت کے بغیر بھی اس مال کو فروخت کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

باقی رہی یہ بات کہ ٹیکس لگانا جائز ہی نہیں تو اسمگلر کے ذمے حکومت  کا دین کیسے لازم ہوا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ فی نفسہ ٹیکس لگانا ناجائز نہیں جب کہ وہ اپنی دیگر شرائط و ضوابط کے مطابق ہو ،لہذا مطلقاً ٹیکس کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔

ردالمحتار(2/336) میں ہے:

وقال أبو جعفر البلخي ما ‌يضر ‌به ‌السلطان على الرعية مصلحة لهم يصير دينا واجبا وحقا مستحقا كالخراج، وقال مشايخنا وكل ما يضربه الإمام عليهم لمصلحة لهم فالجواب هكذا حتى أجرة الحراسين لحفظ الطريق واللصوص ونصب الدروب وأبواب السكك وهذا يعرف ولا يعرف خوف الفتنة ثم قال: فعلى هذا ما يؤخذ في خوارزم من العامة لإصلاح مسناة الجيحون أو الربض ونحوه من مصالح العامة دين واجب لا يجوز الامتناع عنه، وليس بظلم ولكن يعلم هذا الجواب للعمل به وكف اللسان عن السلطان وسعاته فيه لا للتشهير حتى لا يتجاسروا في الزيادة على القدر المستحق

قلت: وينبغي تقييد ذلك بما إذا لم يوجد في بيت المال ما يكفي لذلك لما سيأتي في الجهاد من أنه يكره الجعل إن وجد فيء

شرح العنایہ(7/222) میں ہے:

وأما النوائب فهي ما يلحقه ‌من ‌جهة ‌السلطان من حق أو باطل أو غير ذلك مما ينوبه صحت الكفالة بها؛ لأنها ديون في حكم توجه المطالبة بها

المستصفی للامام الغزالی(1/304)  میں  ہے:

اما اذا دخلت الايدى من الاموال ولم يكن من مال المصالح ما یفى بخراجات العسكر ولو تفرق العسكر واشتغلوا بالكسب لخيف دخول الكفار بلاد الاسلام او خيف ثوران الفتنة من اهل الغرامة في بلاد الاسلام فيجوز للامام ان يوظف على الاغنياء مقدار كفاية الجند

الاحکام السلطانیہ(245) میں ہے:

لما قال القاضي ابو يعلى ان كان البلد ثغراً يتا خم دار الحرب وكانت اموالهم

اذا دخلت دار السلام معشورة عن صلح استقر معهم اثبت في الديوان عقد صلحهم وقدر الماخوذ منهم من عشر أو خمس او زيادة عليه او نقصان منه وان كان يختلف باختلاف الامتعة والاموال فصلت فيه وكان الديوان موضوعاً لاخراج رسومه والاستيفاء ما يرفع اليه من مقادير الامتعة المحمولة اليه

امداد الفتاویٰ (3/122) میں ہے:

سوال: جو چیز نیلا م ہوتی ہے وہ غیر کی ہوتی ہے اور کم دام میں فروخت ہوتی ہے  تو اسکا خریدنا جائز ہے یا نہیں، مسجد یا غیر کے لیے یا اپنے لیے؟

جواب: خریدنا جائز ہے۔اما اذا كان برضاء المالك فظاهر واذا كان بغير رضاه فان كان البائع حاكما مسلما فلما في الدر المختار لايبيع القاضى عرضه ولا عقاره للدين خلافا لهما به يفتى اختيارا وصححه في تصحيح القدوري في ردالمحتار ومسئله في الملتقى (ج:4ص:145) وان كان حاكما غير مسلم فلو لنفسه فالجواز للاستيلاء لانه به يتملك فيبيع ملك نفسه ولو لغيره فالجواز للضرورة كما في ردالمحتارفي نفاذ قضاء المرتشى ما نصه وينبغى اعتماده للضرورة في هذا الزمان والا بطلت جميع القضاء بالواقعة الان الى قوله فيلزم تعطيل الاحكام وفيه لو اعتبر العدالة لاينسد باب القضاء فكذا يقال ههنا (ج:4،ص:471) قلت فكما حكم بالنفاذ مع قيام المانع ههنا يحكم فيما نحن فيه كذلك

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved