• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زنا سے توبہ کے لیے عورت سے معافی مانگنا ضروری ہے یا نہیں؟

  • فتوی نمبر: 29-61
  • تاریخ: 03 ستمبر 2023
  • عنوانات:

استفتاء

ایک شخص نے کسی عورت سے اس کی رضامندی سے زنا کیا یا کسی مرد سے اس کی رضامندی سے بدکاری کی تو اب توبہ کے لیے اس عورت ومرد سے بھی معافی مانگنی ضروری ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زنا سے توبہ کرنے کے لیے جس عورت سے زنا کیا ہو اس سے معافی مانگنا ضروری نہیں ہے اسی طرح جس مرد سے بدکاری کی گئی ہو اس سے معافی مانگنا ضروری نہیں خصوصاً جبکہ زنا عورت کی رضامندی سے کیا گیا ہو یا بدکاری مرد کی رضامندی سے کی گئی ہو۔

توجیہ: زنا حق العبد میں سے نہیں  ہے بلکہ حق اللہ میں سے ہے  لہٰزا جب حق العبد تلف نہیں کیا گیا تو بندے سے معافی کی ضرورت بھی نہیں۔

امداد الفتاویٰ (4/552) میں ہے:

اگر کوئی شخص کسی خاوند والی عورت سے زنا کرے تو یہ گناہ صرف توبہ کرنے سے معاف ہو جاوے گایا کہ خاوند سے معاف کرانے سے معاف ہوگا زنا حق العبد ہے یا حق اللہ ہے؟ ان دیار میں اس بارہ میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں شوہر سے معاف کرانا ضروری نہیں توبہ سے معاف ہو جاوے گااور دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں : التائب من الذنب کمن لاذنب له۔ یہ حدیث اس باب میں قابل سند ہے یا نہیں ؟ بعض کہتے ہیں کہ بغیر شوہر سے معاف کرائے معاف نہ ہوگا۔ اور دلیل میں حضرت سیدنا داؤد ؑ اوریا ؓکا قصہ پیش کرتے ہیں ، ان دونوں میں کون حق پر ہے؟

 أخرج الستة عن ابي هريرة وزيد بن خالد الجهنى رضى الله تعالى عنهما ان اعرابيا اتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله انشدك بالله الا قضيت لى بكتاب الله الى ان قال ان ابنى عسيفا على هذا فزنى بإمرأته وفيه قال صلى الله عليه وسلم لاقضين بينكما بكتاب الله تعالى الوليدة والغنم ر عليك وعلى ابنك جلد مأته وتغريب عام الحديث واخرج مالك وابوداؤد وعن ابن المسيب ان رجلا من اسلم يقال له هزال شكى الى رسول الله صلى الله عليه وسلم الى قوله فقال النبى صلى الله عليه وسلم يا هزال لو سترته بردائك لكان خيرا لك كذا في التيسير روایۃ أولی دال است برآں کہ حضورﷺ بجز حدِّشرعی چیزے نفرمودہ پس اگر عفو کنانیدن اززوج ضروری بودے لا محالہ برآں تنبیہ فرمودے وروایت ثانیہ دلالت می کند براحبیّت ستراین چنیں امر و ظاہر است کہ از عفو کنانیدن اززوج مستلزم ست افشاراپس غیر محبوب خواہد بود واجب بودن شے یا غیر محبوب بودنش جمع نمی تواں شدپس مقتضائے ہر دو دلیل برآں برآمد کہ عفو کنانیدن بجز حق تعالیٰ از کسے ضروری نیست بلکہ گونہ خلاف حیاست وسترافضل است وسردریں آنست کہ ایں امر شنیع از حقوق اللہ است زیرا کہ اگر از حقوق العباد بودے پس بائیستی باذن مستحق جائز بودے وایں باطل محض است وقصہ اور یا اولاً ثابت نیست ثانیاً ب ژپ ابمتنازع فیہ مس نیست زیرا کہ بر تقدیر ثبوتِ حق اور یا آں بود کہ مقصود از فرستادنش امرے بود کہ اور اخبر نبود ثالثاً شرائع من قبلنا ہرگاہ خلاف قواعد شرع ماباشد حجت نیست وحق آنست کہ آں قصہ بے اصل محض است و حدیث: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ دلیل کافی ست دریں باب  فقط۔

امداد الفتاویٰ (4/371) میں ہے:

سوال:**نے مسماۃ ہندہ منکوحہ عمرو سے بحالت حیات عمرو زنا کیا کیا زید سوائے حق اللہ کے عمرو کا بھی خطا وار ہوگیا پھر یہ حق اللہ و حق العبد دونوں توبہ سے معاف ہوجاویں گے یا نہیں ؟ یا توبہ کے ساتھ عمرو سے بھی معاف کرانا ضروری ہوگا اور کیا بایں ہمہ بھی کچھ گناہ باقی رہے گا؟

الجواب:کہیں تصریح تو دیکھی نہیں لیکن قواعد شرعیہ اس کو مقتضی ہیں کہ چونکہ اس صورت میں یہ فعل موجب ہتک عرض شوہر ہوا ہے اس میں گناہ زیادہ ہوگا جیسا کہ حدیث میں اسی بناء پر حلیلۂ جار کی تخصیص وارد ہے ۔باقی یہ کہ کیا شوہر سے بھی معاف کرانا پڑے گا سو قواعد ہی کا یہ بھی مقتضا معلوم ہوتا ہے کہ قبول توبہ کے لئے یہ شرط نہیں کیونکہ یہ ہتک عرض لازم آگیا اس کا قصد نہیں کیا گیا وشتان بین اللازم والمقصود۔ والله اعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved