- فتوی نمبر: 30-330
- تاریخ: 22 اکتوبر 2023
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
مفتی صاحب میں ترجمے کا کام کرتا ہوں۔ ابھی میرے پاس آن لائن کرنسی ٹریڈنگ کا انگلش سے اردو ترجمے کا کافی کام آیا ہے۔ کیا میں اس کام میں ترجمے کے ذریعے معاونت دے سکتا ہوں اور میری یہ آمدنی جائز اور حلال ہوگی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
عام طور پر کرنسیوں کی آن لائن ٹریڈنگ فاریکس وغیرہ کے طریقے پر ہی ہوتی ہے جوکہ جائز نہیں لہٰذا آپ کے لیے ایسی کتاب کا ترجمہ کرنا جو اسی ٹریڈنگ کو سکھائے ناجائز کا م میں تعاون ہے جوکہ ناجائز ہے۔
امداد الاحکام (3/483) میں ہے:
سوال: سودی فارم کا لکھنا اور فروخت کرنا کیسا ہے؟
جواب: گو اس کو فروخت کرنے میں اور لکھنے میں وہ گناہ تو نہیں جو سودی تحریر میں ہے کیونکہ اس کے کاتب وبائع کو کاتب الربا نہیں کہہ سکتے مگر پھر بھی یہ تحریر چونکہ سبب قریب کتابت ِ ربا کا ہے اس لیے کراہت سے خالی نہیں ، بس اس کو بیع نہ کہا جائے۔[لعل الصواب: اس کی بیع نہ کی جائے،از ناقل]
امداد الفتاویٰ (7/34) میں ہے:
سوال: احقر سرکاری مدرسہ میں درجہ سوم وچہارم کی تعلیم دیتا ہے اور درجہ چہارم کو ہر سال میں چار ماہ سود کے نکالنے کا قاعدہ بتلانا پڑتا ہے اور سوالات مشقیہ حل کرانے پڑتے ہیں، علاوہ اس کے باقی عرصہ میں اور حساب بھی سِکھلا تا ہوں اور مدرسہ میں ہندو ومسلمان سب قسم کے طلبہ ہیں، لہٰذا اس درجہ کو تعلیم دینا میرے واسطے جائز ہے یا نہیں؟ درجہ سوم میں اور حساب کی تعلیم ہے سود کی نہیں ہے۔
جواب: آپ قبل تعلیم یہ کہہ دیا کریں کہ میں جو لفظ سود کہوں گا مراد میری وہ نفع جائز ہوگا جوکہ بلا شرط خود نیت کرلے کہ میں جب اس کا قرض ادا کروں گا تو میں اپنے دل سے اور خوشی سے بدون اس کے استحقاق ومطالبہ کے اتنے حساب سے تبرعا زیادہ دے دوں گا پس اتنا کہہ کر پھر وہ حساب سکھلا دیں تعلیم کا گناہ تو اسی وقت جاتا رہا، اب اس سے اگرنا جائز طور پر کوئی کام لے گا تو اس پر وبال ہوگا۔
(مذکورہ فتوے میں حضرت تھانویؒ نے مطلقاً تدریس کی اجازت نہیں دی بلکہ مشروط اجازت دی ہے کہ طلباء کو پہلے جائز محمل بتائے جبکہ سوال میں مذکور صورت میں چونکہ بظاہر ایسی کوئی تجویز ممکن نہیں اس لیے یہ صورت ناجائز ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved