- فتوی نمبر: 8-237
- تاریخ: 27 فروری 2016
- عنوانات: عبادات > روزہ و رمضان
استفتاء
میں صوبہ خیبر پختون خواہ کا رہائشی ہوں، آج سے کچھ سال پہلے ہمارے صوبہ میں بعض جگہ پر چاند نظر آنے کی اطلاع موصول ہوئی، مگر ہمارے علاقہ کوہاٹ میں کوئی ایسی بات سامنے نہ آئی اور سعودیہ میں بھی اس چاند نظر آنے کا پتہ چلا، ہم نے بعض حضرات کے کہنے پر اگلے دن نفل کی نیت سے روزہ رکھ لیا کہ رمضان ہوا تو ٹھیک، ورنہ نفل ہو جائے گا۔ اس روزہ کے اٹھائیس دن بعد ہمارے علاقے میں بھی چاند نظر آ گیا، اور اگلے دن عید ہو گئی۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ وہ پہلا روزہ جو ہم نے نفل کی نیت سے رکھا تھا اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ رمضان کا تھا، آیا یہ روزہ رمضان کا شمار ہو گا یا نہیں؟ اور اس کی قضا کا کیا حکم ہے، کیا وہ ہم پر لازم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جب آپ نے اس نیت سے روزہ رکھا کہ اگر یہ رمضان کا ہوا تو یہ روزہ رمضان کا ہوگا، ورنہ نفل ہو جائے گا۔ اور بعد میں پتہ چلا کہ یہ دن رمضان ہی کا تھا، تو اس صورت میں یہ روزہ رمضان ہی کا شمار ہو گا۔ لہذا اس روزے کی قضا کرنے کی ضرورت نہیں۔
تاتارخانيہ (2/ 296) میں ہے:
و إن كان نوى صوم التطوع فإن ظهر أن هذا اليوم من رمضان جاز صومه عن رمضان.
و في الدر المختار (3/ 394، 397):
و بمطلق النية و بنية النفل لعدم المزاحم و بخطأ في وصف كنية واجب آخر في أداء رمضان فقط لتعينه بتعيين الشارع …. و لو صام مقيم عن غير رمضان و لو لجهله به أي برمضان فهو عنه، لا عما نوى، لحديث إذا جاء رمضان فلا صوم إلا عن رمضان.
مراقی الفلاح (8/ 647) میں ہے:
و كره فيه أي في يوم الشك كل صوم إلا صوم نفل جزم به بلا ترديد بينه و بين صوم آخر فإنه لا يكره و إن ظهر أنه من رمضان أجزأ عنه أي عن رمضان ما صامه بأي نية كانت …. (فصل فيما يثبت به الهلال و في صوم)
فتاویٰ حقانیہ (4/ 143) میں ہے:
’’اگر شک والے دن نفل کی نیت سے روزہ رکھا جائے، مگر بعد میں شرعی ثبوت سے یہ معلوم ہو جائے کہ آج تو یکم رمضان ہے تو عند الشرع اس نفل روزے کا کیا حکم ہے؟
جواب: یکم رمضان ثابت ہونے پر یہ دن یوم شک کا نہیں بلکہ رمضان کا شمار ہو گا۔ کیونکہ ماہ رمضان روزوں کے لیے مقرر ہے، اس لیے کسی نفل کی نیت سے فرض روزہ متاثر نہیں ہو گا، بلکہ یہی روزہ رمضان کا روزہ شمار ہو گا اور اس پر قضا بھی لازم نہیں۔‘‘
فتاویٰ محمودیہ (7/ 296) میں ہے:
’’29 شعبان کو مطلع صاف تھا بالکل اور چاند نظر نہیں آیا، 30 شعبان کو ***نے اس نیت سے روزہ رکھا کہ اگر شہادت کی بنا پر روزہ ہو گیا تو فرض، ورنہ نفل ***نے 30 شعبان کو بلا تردد نفل روزہ رکھا۔ کچھ روز بعد شرعی شہادت سے۔۔۔۔۔۔ 30 شعبان کو یکم رمضان ہے۔ سوال ***و ***کے لیے کیا حکم ہے؟
الجواب: رمضان شریف کا روزہ دونوں سے ادا ہو گیا، ***کا بلا کراہت اور ***کے روزہ میں اس تردد کی وجہ سے کچھ
کراہت آ گئی، تاہم قضا کسی کے ذمہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved