• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رات سے نیت کی اور سحری کے لیے نہ اٹھ سکا تو صبح کو روزے کا حکم

استفتاء

***نے رات سونے سے قبل یہ ارادہ کیا کہ کل وہ نفل روزہ رکھے گا۔ مگر صبح سحری میں آنکھ نہ کھل سکی۔ اب اگر وہ روزہ نہ رکھنا چاہے اور کچھ کھا پی لے تو کیا اس پر اس روزہ کی قضاء آئے گی یا نہیں؟ نیز اگر یہی صورت حال رمضان کے مہینہ میں پیش آجائے تو کیا ایسے شخص پر کفارہ بھی آئے گا یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو آدمی رات کو آئندہ کل روزہ رکھنے کی نیت کر کے سو گیا اور سحری کے وقت اس کی آنکھ نہ کھل سکی تو اس کا روزہ ہو گیا۔ اب

اگر یہ شخص روزے کو توڑے گا تو اس کی قضا کرنی پڑے گی اور اگر یہ صورت حال رمضان کے مہینہ میں پیش آئی ہو تو قضا کے ساتھ اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے:

فتاویٰ تاتارخانيہ (3/ 373) میں ہے:

وفي الحجة: ولو نوى أن يصوم غداً ثم بدا له قبل الصبح أن لا يصوم لا يجب عليه القضاء ولو نوى أن يصوم غداً فأكل بعد الصبح يجب عليه القضاء.

عمدۃ الفقہ (3/ 303) میں ہے:

’’نیت سے رجوع اس وقت معتبر ہے جبکہ رات میں کیا ہو لیکن اگر صبح صادق طلوع ہونے کے بعد نیت سے رجوع کیا تو پہلی نیت باطل نہیں ہو گی اور وہ شخص روزہ دار رہے گا اور توڑ دینے پر رمضان کے روزہ کی صورت میں کفارہ بھی لازم آئے گا اور غیر رمضان میں صرف قضا لازم ہو گی۔‘‘

’’آپ کے مسائل   اور ان کا حل‘‘ میں ہے:

’’سوال: ایک شخص نے روزے کی نیت کی اور سو گیا۔ مگر سحری کے وقت نہ اٹھ سکا تو کیا صبح کو اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے؟

جواب: جب اس نے رات سونے سے پہلے روزے کی نیت کر لی تھی تو صبح صادق کے بعد اس کا روزہ (سونے کی حالت میں) شروع ہو گیا۔ اور روزہ شروع ہونے کے بعد اس کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رہتا کہ وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے؟ کیونکہ روزہ رکھنے کا فیصلہ تو وہ کر چکا ہے۔ اور اس کے اسی فیصلہ پر روزہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ اب روزہ شروع کرنے کے بعد اس کو توڑنے کا اختیار نہیں۔ اگر رمضان کا روزہ توڑ دے گا تو اس پر قضا اور کفارہ دونوں لازم آئیں گے۔‘‘ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

مفتی رفیق صاحب کی رائے:

مذکورہ صورت حال میں اگر یہ شخص روزہ نہ رکھنا چاہے اور کچھ کھا پی لے تو ایسا کرنے سے اس  پر نہ قضا آئے گی اور نہ ہی کفارہ آئے گا۔ کیونکہ جو حوالہ جات مجیب نے ذکر کیے ہیں ان سے مراد وہ صورت حال ہے کہ جس میں آئندہ کل روزہ رکھنے کا ارادہ پختہ ہو یعنی یہ ارادہ ہو کہ خواہ آنکھ کھلے یا نہ کھلے ہر حال میں روزہ رکھوں گا۔ جبکہ عموماً جو لوگ رات کو آئندہ کل روزہ رکھنے کی نیت کر کے سو جاتے ہیں ان کا یہ ارادہ نہیں ہوتا کہ ہر حال میں روزہ رکھیں گے، خواہ آنکھ کھلے یا نہ کھلے۔ بلکہ ان کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ صبح اٹھ کر سحری کریں گے اور روزہ رکھیں گے۔

عمدۃ الفقہ (3/202) میں ہے:

’’اگر کسی نے شب میں نیت کی کہ آخرِ شب میں سحری کھائے گا پھر اس نے سحری نہ کھائی یہاں تک کہ صبح طلوع ہو گئی

اس قدر نیت سے اس کا روزہ درست نہیں ہو گا۔‘‘

حضرت ڈاکٹر مفتی عبد الواحد مدظلہ کی رائے

مفتی رفیق صاحب کی رائے سے اتفاق ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved