- فتوی نمبر: 6-380
- تاریخ: 23 مئی 2014
- عنوانات: مالی معاملات > کمپنی و بینک
استفتاء
ہم نیشنل بینک آف پاکستان جو کہ حکومت پاکستان یعنی وفاق کی ملکیت ہے، میں اس کی اسلامک بینکنگ ڈویژن میں ملازمت کرتے ہیں، جس کے متعلق مفتی جامعہ دار العلوم کراچی نے فتویٰ جاری کیا ہےکہ اگر نیشنل بینک شعبہ اسلامی بنکاری کو اپنے سرمائے کے حسابات اور نفع و نقصان کے لحاظ سے اس طرح الگ رکھا گیا کہ اس شعبہ کا نفع و نقصان سودی بنکاری سے کسی طرح متاثر نہیں ہوتا اور اسے مستند عالم دین کی نگرانی میں شرعی اصولوں کے مطابق چلایا جاتا ہے تو یہ جائز ہے۔ فتویٰ ساتھ منسلک ہے۔
بنک اپنے ملازموں کو ان کے 125 بنیادی تنخواہوں کے برابر گھر بنانے کے لیے قرض فراہم کرتا ہے اور گھر (تعمیر شدہ مکان) کی رجسٹری اپنے پاس رہن رکھتا ہے، اس رقم پر پہلے 11 لاکھ تک کوئی چارجز نہیں لیتا، جب کہ باقی رقم پر تین فیصد سالانہ کے حساب سے وصول کرتا ہے۔ ہم اسلامک بنک کے ملازم 11 لاکھ تک تو لے لتیے ہیں جبکہ باقی رقم سود کی وجہ سے نہیں لیتے، یہ رقم 20 سال میں تنخواہ میں سے ہی منہا کر لی جاتی ہے، ایک ایگریمنٹ بھی لکھا جاتا ہے جس کی رُو سے اگر نوکری چھوڑ دی گئی یا بنک نے فارغ کر دیا تو اس پر گاہک کے بنک ریٹ پر مارک اپ لگایا جائے گا۔
کیا یہ قرضہ لینا شرعی اصولوں کے مطابق صحیح ہے؟ اس طرح کا فتویٰ بھی ساتھ لف ہے۔[1]
[1]۔ سوال: **اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازم ہے، اسٹیٹ بینک اپنے ملازمین کو چھتیس ماہ کی تنخواہ کے برابر پیشگی رقم اس غرض سے دیتا ہے کہ وہ اپنا مکان تعمیر کریں، یہ رقم ملازم کی تنخواہ سے پندرہ سال کے عرصہ میں وضع کر لی جاتی ہے، البتہ اس پر تین روپے فی صد وصول کیے جاتے ہیں اور ایک ایگریمنٹ بھی ہوتا ہے جس کی رو سے زمین اور اس پر تعمیر شدہ مکان اسٹیٹ بنک کے پاس رہن کر دیا جاتا ہے اور سود اور ادائیگی وغیرہ کی شرائط پر دستخط کر دیے جاتے ہیں، کیا از روئے شرع یہ جائز ہے؟
جواب: مسئلہ مذکورہ میں تین چیزیں قابل غور ہیں:
1۔ زیادۃ فی المرہون صحیح ہے یا نہیں؟ =
= 2۔ دین رہن قسط وار وصول کرنا جائز ہے یا نہیں؟
3۔ تین روپے فیصد بنام سود جو وصول کیے جاتے ہیں وہ شرعاً سود ہے یا نہیں؟
تحقیق: ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ 3۔ تین روپے فیصد بنام سود جو تنخواہ سے کاٹے جاتے ہیں وہ شرعاً سود نہیں بلکہ تنخواہ تین روپے فیصد کم کر دی گئی ہے، کسی چیز کا نام بدلنے سے اس کی حقیقت نہیں بدلتی۔ و اللہ سبحابہ و تعالیٰ اعلم
سوال مثل بالا: دوران ملازمت سرکار سے کچھ رقم مکان خریدنے یا بنوانے کے لیے یا موٹر سائیکل خریدنے کے لیے ادھار لیتے ہیں، پھر اس پر سود کا لین دین ہوتا ہے۔ اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: در حقیقت یہ قرض نہیں پیشگی تنخواہ ہے اور جو رقم بنام سود وصول کی جاتی ہے اس کے مطابق تنخواہ کم کر دی جاتی ہے، لہذا یہ سود نہیں، اس لیے جائز ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
احسن الفتاویٰ کے منسلکہ فتاویٰ سے اتفاق نہیں، کیونکہ یہ قرض ہے پیشگی تنخواہ نہیں ہے۔ کیونکہ جو تنخواہ مقرر ہوتی ہے بینک سے پیشگی لینے سے اس تنخواہ میں کمی بیشی نہیں ہوتی، مثلاً اگر تنخواہ 30000روپے طے ہوئی تو پیشگی لینے کے بعد بھی تنخواہ 30000 روپے ہی رہتی ہے، البتہ ہر ماہ اس کی تنخواہ میں سے مثلاً 10000 قرض کی واپسی کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ پیشگی لینے کی وجہ سے آئندہ مہینوں میں ملازم کی تنخواہ 20000 روپے کر دی جاتی ہے۔
11 لاکھ روپے کا قرض اس وقت لے سکتے ہیں جب:
1۔ ملازم کا بینک چھوڑنے کا ارادہ نہ ہو۔
2۔ کوئی ایسا کام نہ کرے جس کی وجہ سے بینک ملازم کو خارج کر دے۔
3۔ رقم صرف ضروری رہائش میں لگائے، رہائش سے ہٹ کر کسی اور کام میں نہ لگائے۔
4۔ ملازم کے لیے رہائش میں مجبوری ہو کہ کرایہ برداشت سے باہر ہو۔
5۔ اس بات کی فکر کرے کہ اگر ملازمت سے فارغ کیا گیا تو فوری طور پر بقایا بینک کو واپس کر دے تاکہ سود یا مارک اپ دینے کی نوبت نہ آئے۔
تنبیہ: یہ جواب منسلکہ فتوے کے اعتبار سے دیا ہے ورنہ ہم مروجہ اسلامی بینکنگ سے پورے متفق نہیں ہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved