• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مفقود کی بیوی کے لیے حکم

استفتاء

كيا فرماتے ہیں علماء کرام…….ایک عورت کا شوہر  تین سالوں سے لا پتہ ہے اس کا کوئی سُراغ نہیں مل رہا ہے …کیا وه کسی دوسرے سے شادی کر سکتی ہے ؟ اس کا تفصيلی جواب دركا ر ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر عورت کا شوہر ایسا لاپتہ ہو گیا ہے کہ اس کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے اور عورت کے لیے خرچہ کا انتظام نہیں ہے یا معصیت کے خوف کی وجہ سے اس کا بیٹھنا مناسب نہیں ہے تو اس صورت میں:

1۔عورت قاضی کی عدالت میں مرافعہ کرے۔

2۔اور بذریعہ شہادت شرعیہ یہ ثابت کرے کہ میرا فلاں شخص سے نکاح ہوا تھا۔ اگر نکاح کے عینی گواہ موجود نہ ہوں تو اس معاملہ میں شہرت کی بناء پر بھی شہادت کافی ہے۔

3۔اس کے بعد گواہوں سے اس کا مفقود و لاپتہ ہونا ثابت کرے۔

4۔ بعد ازاں قاضی خود بھی مفقود کی تفتیش و تلاش کرے ۔

5۔ اور جب پتہ ملنے سے مایوس ہو جائے تو عورت کو چار سال تک مزید انتظار کا حکم کرے۔

6۔ پھر اگر ان چار سالوں میں بھی مفقود کا پتہ نہ چلے تو اس مدت کے ختم ہونے پر مفقود کو مردہ تصور کیا جائے گا۔

7۔ اس کے بعد عدت وفات یعنی چار ماہ دس دن کی عدت گزار کر عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار ہو گا

مفقود الزوج سے متعلق مذکورہ بالا حکم ’’مسائل بہشتی زیور‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اس بارے میں دو باتوں سے متعلق آپ کی رائے مطلوب ہے:

1۔ کیا اثباتِ نکاح کے لیے خالی نکاح نامہ شہادت شرعیہ کے قائمقام ہو سکتا ہے یا نہیں؟

2۔ موجودہ عدالتیں مفقود کی تفتیش و تلاش میں اور پھر تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کرنے میں ان قیودات و شرائط کو ملحوظ نہیں رکھتیں جن کا ہم اپنے فتوؤں میں ذکر کرتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ ہمارے فتوؤں کی پابند ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عدالتی چارہ جوئی کے باوجود شرعاً عورت کو آگے نکاح کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ اس بارے میں بھی آپ کی رائے درکار ہے کہ ایسی عورت کے لیے کیا حل نکالا جائے؟

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved