• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زکوة

  • فتوی نمبر: 9
  • تاریخ: 20 دسمبر 2016

استفتاء

غلہ منڈی میں اپنے مال کی زکوة نکالنے کے حوالے سے آڑھتی حضرات کا کہنا ہے کہ کچھ مال گودام میں ہوتا ہے اور کچھ وہ ہے جو خرید چکے ہیں لیکن ابھی قبضہ نہیں کیا۔ اسی طرح دوسروں سے پیسے لینے ہوتے ہیں جو لاکھوں میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض پیسے تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے بارے میں غالب گمان یہ ہوتا ہے کہ یہ پیسے واپس نہیں ملنے۔ لہٰذا مذکورہ بالا صورتوں کو دیکھتے ہوئے زکوة کے احکامات تفصیل سے ذکر فرما دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب زکوة کا سال پورا ہو جائے تو اس وقت جو مال گودام میں موجود ہے اور جو مال آگے فروخت کرنے کے لیے خریدا ہے اگرچہ ابھی اس پر قبضہ نہیں کیا، اور جو پیسے لوگوں سے لینے ہیں اور ان کے ملنے کی امید ہے، ان سب کی زکوة دینا ضروری ہے۔ البتہ جن پیسوں کے ملنے کی امید نہ رہی ہو ان پر زکوة واجب نہیں۔

نوٹ: جو مال گودام میں موجود ہے یا جو مال خریدا ہے اور ابھی اس پر قبضہ نہیں کیا، ان کی قیمت فروخت پر زکوة آئے گی نہ کہ قیمت خرید پر۔

(١)        الفقہ الاسلامی و أدلتہ: (٢/٧٩٢) طبع دارالفکر۔

یقوم التاجر العروض او البضاع التجاریة فی کل عام بحسب سعرها فی وقت اخراج الزکاة لابحسب سعر شرائها۔

(٢)        التاتار خانیة: (٢/١٧٩) طبع بیروت۔

ذکر محمد فی ”الرقیات” أنه یقوم فی البلد الذی حال الحول علی المتاع بما یتعارفه اهل ذلک البلد نقداً فیما بینهم یعنی غالب ذلک البلد۔

(٣)        الدر المختار : (٢/٢٦٣) طبع ایچ ایم سعید۔

ولا فی ما اشتراه للتجارة قبل قبضه۔

(٤)        شامی : (٢/٢٦٣) طبع ایچ ایم سعید۔

وأما بعده (أی بعد القبض) فیزکیه عما مضیٰ.

(٥)        الفتاویٰ العالمگیریة : (١/٨٨)

وأما المبیع قبل القبض فقیل لا یکون نصاباً، و الصحیح أنہ یکون نصاباً، کذا فی محیط السرخسی۔

(٧)        البحر الرائق: (٢/٢٢٥)

وذکر فی المحیط…..أن المبیع قبل القبض قیل لا یکون نصابا؛ لأن الملک ناقص … والصحیح أنه یکون نصابا؛ لأنه عوض عن مال کانت یده ثابتة علیه و قد أمکنه احتواء الید علی العوض، فتعتبر یده باقیة علی النصاب باعتبار التمکن شرعاً۔ فعلی هذا قولهم لاتجب الزکاة: معناه قبل قبضه، و أما بعد قبضه فتجب زکاته فی ما مضیٰ کالدین القوی.

(٨)        بدائع الصنائع للکاسانی: (٢/٨٨،٨٩ ، ٩٠) طبع دار احیاء التراث العربی ، بیروت۔

وأما الشرائط التی ترجع الی المال : …  ومنها : الملک المطلق وهو أن یکون مملوکاً له رقبة و یداً ۔۔۔۔۔فلا تجب الزکاة فی المال الضمار عندنا …. وهو المال الذی لاینتفع به مع قیام الملک ….و لأن المال اذالم یکن مقدورا الانتفاع به فی حق المالک لایکون المالک به غنیاً  …. و أما الدین المجحود فان لم یکن له بینة فہو علی الاختلاف ، وان کان له بینة اختلف المشایخ فیه ، قال بعضهم : تجب الزکاة فیه لأنه یمکن الوصول الیه بالبینة فاذا لم یقم البینة فقد ضیع القدرة فلم یعذر ، و قال بعضهم: لاتجب لأن الشاهد قد یفسق …. وان کان المدیون یقر فی السر و یجحد فی العلانیة فلا زکاة فیه ….. ان کان الدین مالاً مملوکاً أیضاً لکنه مال لا یحتمل القبض لأنه لیس بمال حقیقة بل هو مال حکمی فی الذمة و ما فی الذمة لا یمکن قبضه، فلم یکن مالاً مملوکاً رقبةً و یداً فلا تجب الزکاة فیه کمال الضمار۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved