• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصہ میں طلاق کا حکم

استفتاء

میں سعودی عرب میں ہوتا ہوں، میری بیوی پاکستان میں ہے، میرا اپنی بیوی سے اس کے ماں باپ کے گھر سے میرے گھر جانے پر فون پر شدید جھگڑا ہو گیا، جس پر میں بہت شدید غصے میں آ گیا، وہ بھی بہت غصے میں تھی اور مجھ سے طلاق مانگ رہی تھی، مجھے نہیں پتا میں نے کیسے اس کو تین بار طلاق کا کہہ دیا، میرے الفاظ تھے "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”، میری نیت ہرگز ہرگز اس کو طلاق دینے کی نہیں تھی، مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ میں نے کیسے اس کو طلاق کا کہہ دیا، میں کہہ کچھ اور چاہتا تھا غصے میں، لیکن میرے بیوی طلاق کا کہہ رہی تھی تو غیر ارادی طور پر مجھ سے یہ الفاظ ادا ہو گئے۔ اب ہم دونوں میاں بیوی پچھتا رہے ہیں، اللہ سے سچے دل سے توبہ کرتے ہیں، معافی مانگتے ہیں، آئندہ کبھی ایسا نہیں کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہماری تین طلاقیں ہو گئی ہیں؟ یا اسلام میں میرے حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کوئی گنجائش ہے؟ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر طلاق ہو گئی ہے تو ہم کیسے دوبارہ میاں بیوی کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں؟

چونکہ میں سعودی عرب میں مقیم ہوں کیا میں یہاں کے مقامی مسلک کو اختیار کر سکتا ہوں؟ کیونکہ اس صورت میں میرا گھر بچ سکتا ہے۔ اور کیا اس کے بعد میں دوبارہ حنفی بن سکتا ہوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شوہر کی غصہ میں اگر ایسی حالت ہو جائے کہ شوہر سے غصہ میں خلافِ عادت اقوال و افعال صادر ہونے لگیں مثلاً بہکی بہکی باتیں کرنے لگے یا سر وغیرہ دیوار میں مارنے لگے یا برتن وغیرہ توڑنے لگے تو ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته ………. فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها، لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

مذکورہ صورت میں غصہ کی ایسی حالت نہیں کہ جس میں خلافِ عادت اقوال و افعال کا صدور ہوا ہو۔ محض اتنی بات ہے کہ طلاق دینا نہیں چاہتا تھا لیکن غصے میں طلاق نکل گئی۔ لہذا مذکورہ صورت میں عورت کے حق میں تین طلاقیں ہو گئی ہیں اور عورت کے لیے حلال نہیں کہ شوہر کے ساتھ میاں بیوی والے تعلقات قائم رکھے۔

نوٹ: تين طلاقوں کے بارے میں مقامی مسلک کو اختیار کرنا درست نہیں۔ کیونکہ یہ مسلک جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ اور پوری امت کی اکثریت کے خلاف ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved