- رابطہ: 3082-411-300 (92)+
- ای میل: ifta4u@yahoo.com
- فتوی نمبر: 8-69
- تاریخ: جولائی 16, 2024
- عنوانات: طب، علاج و معالجہ, متفرقات
استفتاء
دولہا بارات میں جا رہا تھا، نکاح ابھی تک نہیں ہوا تھا، راستے میں ایکسیڈنٹ ہوا، جس کی وجہ سے دولہا کا عضو تناسل کٹ گیا، تو پھر دولہن کے والد نے عمل ِ جراحی کے ذریعے اپنا عضو تناسل دولہا کو لگوا دیا، اور اب وہ دولہا جنسی اعتبار سے ٹھیک ہو گیا، تو کیا یہ دولہا اس دولہن سے نکاح کر سکتا ہے؟ اور کیا اس طرح ان کا عمل جراحی کروانا درست ہے؟ براہِ کرم دونوں سوالوں کے جواب تفصیلا مرحمت فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
الف: یہ دولہا اس دلہن سے نکاح کا عقد تو کر سکتا ہے، کیونکہ عقد نکاح کا تعلق ایجاب و قبول سے ہے۔ دلہن کے والد کا عمل جراحی کے ذریعے اپنا عضو تناسل دولہا کو لگوا دینے سے عقد نکاح کا کچھ تعلق نہیں۔
البتہ اس دولہے کے لیے اس دلہن سے بلکہ کسی بھی عورت سے نکاح کر کے ہمبستری کرنا جائز نہ ہو گا۔ کیونکہ یہ عضو تناسل دولہا کو لگوا دینے کے باوجود بھی دلہن کے والد کا ہی شمار ہو گا، نہ کہ دولہا کا۔ اور کسی بھی عورت کے لیے اپنے شوہر کے عضو تناسل کے علاوہ کسی بھی دوسرے شخص کے عضو تناسل کو اپنی شرمگاہ میں داخل کرنا، یا بلا ضرورت شرعیہ کے اسے دیکھنا یا چھونا، نا جائز اور حرام ہے۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:
و كل عضو لا يجوز النظر إليه قبل الإنفصال لا يجوز بعده، و لو بعد الموت، كشعر عانة و شعر رأسها و عظم ذراع حرة و ساقها… الخ. (9/ 613، دار المعرفة)
نیز عرب علماء جو عام طور سے انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے جواز کے بھی قائل ہیں، وہ بھی عورت غلیظہ (یعنی فرج اور ذکر) کی پیوند کاری کو نا جائز ہی کہتے ہیں۔ چنانچہ الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:
زرع بعض أعضاء الجهاز التناسلي التي لا تنقل الصفات الوراثية ما عدا العورات الغليظة جائز لضرورة مشروعة. (7/ 5183)
اور اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اس میں غیر کی شرمگاہ کو استعمال کرنا لازم آتا ہے۔
چنانچہ مجمع الفقہ الاسلامی کی قرار دادوں میں ہے:
المحذور الرابع: في حال نقل الذكر أو الفرج يكون الوطء اللاحق لذلك من قبيل الوطء المحرم، شبيهاً بالزنا المحرم، فإنه في حالة زرع الفرج يكون الرجل قد وطيء فرجاً لا يملكه لكونه فرج غير امرأته، وفي حالة زرع الذكر تكون المرأة قد وطئت بذكر غير زوجها… )مجلة مجمع الفقه الإسلامي :2001-2012
نیز فتاویٰ مفتی محمودؒ میں ہے:
"اسی طرح کوئی دوسرا عضو از قسم آلہ تناسل وغیرہ بذریعہ آپریشن دوسرے کے ساتھ پیوست کر دیا گیا ہو، اس کا نکالنا یا جدا کرنا بغیر ضرر ممکن ہووئے تو جدا کرنا ضروری ہے، ورنہ نہیں۔۔۔۔ آگے لکھتے ہیں: باقی صورت مسئولہ میں جو اس شخص کی اولاد پیدا ہوتی ہے، وہ ثابت النسب ہے، اور اس کی اولاد شمار ہو گی، کیونکہ مادہ منویہ تو اس شخص کا رہتا ہے، اگرچہ دوسرے شخص کے آلہ کے ذریعے رحم میں پہنچایا گیا ہے۔” (11/ 383)
ب: عمل جراحی کا مذکورہ عمل کہ جس میں ایک انسان کے کسی عضو کو دوسرے انسان کے کسی عضو کے ساتھ پیوند کیا گیا ہو، جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں "اعضاء انسانی کی پیوند کاری” مصنفہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved