• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

محکمۂ اوقاف کی طرف سے ملے ہوئے پلاٹ سے قرض کی ادائیگی کی ایک صورت

استفتاء

ہم نے کسی پارٹی سے کاروبار کرتے ہوئے (احسن سے ) ایک اچھی خاصی رقم لینی ہے، ہمارے علاوہ اور لوگوں نے بھی ان  سے کافی رقوم لینی ہیں، مختلف لوگوں سے وہ مختلف ڈیل کر رہے ہیں یا ٹال مٹول کر رہے ہیں۔ لہذا یہ اپنے  اثاثہ جات فروخت کر کے رقم دینا چاہتے ہیں، اثاثہ جات کم ہیں اور دینے والی رقم زیادہ ہے، ان کا کاروبار فلاپ ہو گیا، ہمیں وہ ایک پلاٹ جو کہ محکمۂ اوقاف کا ہے دینا چاہتے ہیں کہ آپ اپنے نام کر والیں بعد از جتنے کا فروخت ہو گیا، ہم اپنی رقم وصول کر کے بقیہ رقم اسے واپس دے دیں گے، اس طرح رقم کی ادائیگی کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا، میرے ساتھ بھی اس رقم میں کچھ انویسٹر بھی شامل ہیں، جن کا تحفظ بھی مجھے ہی کرنا ہے۔ از راہ کرم اس سلسلہ میں جو محکمانہ کاروائی آنی ہو گی اس میں حلفاً اقرار نامہ وغیرہ لکھ کر دینا ہو گا، جس کا نمونہ بھی ساتھ آپ کو دے رہا ہوں۔

براہ کرم میری مجبوری اور محکمہ کی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے دین اسلام کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت: محکمہ اوقاف کے قانون کی وجہ سے مذکورہ پلاٹ اپنے نام کروانے کے لیے محکمہ والوں نے سائل کو یہ صورت بتائی ہے کہ ایک حلفیہ بیان جمع کرویا جائے کہ پلاٹ کرائے پر لینے والے کے ساتھ دیگر شرکاء بھی تھے، حالانکہ واقع میں کوئی شریک نہیں تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مقروض کو چاہیے کہ وہ پلاٹ پر کوئی تعمیر کر کے وہ پلاٹ کسی اور کو (مثلاً ***کو) فروخت کر دے اور

1۔ قیمت فروخت سے سائل وغیرہ کی رقمیں اتار دے۔

2۔ محکمۂ کو درخواست دے کہ وہ مالی مجبوری کی وجہ سے کرایہ داری کا معاملہ آگے چلانے سے قاصر ہے اور وہ کرایہ داری میں ***کے حق میں دسبتردار ہوتا ہے، محکمہ والوں سے اس بارے میں پہلے سے بات کر لی جائے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved