• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والد کے کاروبار میں والد کے ساتھ مل کر کام کرنا

استفتاء

میرے والد صاحب 45 سال تک مختلف چیزوں (ٹیوب ویل، واٹر پمپ، چکیاں وغیرہ) کا کاروبار کرتے رہے، 65 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ کاروبار کا طریقہ کار دو طرح سے تھا: (1) یا تو والد صاحب خود مال تجارت خرید کر اپنی دکان پر رکھتے تھے اور گاہک کو بیچ کر اس پر منافع حاصل کرتے تھے۔ (2) دوسرا مال تجارت عاریتاً لے کر فروخت کرتے تھے، راس المال واپس کرتے تھے اور منافع اپنے پاس رکھتے تھے۔

والد نے دن رات محنت کر کے ایک دکان اور مکان خریدا، اولاد بہت چھوٹی تھی، جب والد صاحب نے دکان ، مکان اور گاڑی خریدیں۔ جب میرے والد صاحب 39 سال کے تھے تو اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی تجارت میں شامل کیا، وہ واشگاف الفاظ میں کہا کرتے تھے کہ ہم باپ بیٹا مل کر محنت کرتے ہیں اور حق حلال کی کمائی کھاتے ہیں، والد صاحب نے بھائی کو تجارت کرنا سیکھائی، ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا، والد صاحب اپنے بیٹے کی ہر خواہش پوری کرتے تھے اور کبھی کسی چیز کی کمی نہ کی۔

بھائی نے کس عمر سے باقاعدہ کمانا شروع کیا یعنی وہ بغیر والد صاحب کی معاونت کے اپنی ذہانت کے بل پر گاہک کو مال بیچنے کے قابل ہوا، یہ تو صرف والد صاحب کو ہی معلوم ہے، لیکن اس بات پر گواہ اور عینی شاہد موجود ہیں جن کا موقف یہ ہے کہ والد صاحب نے کبھی بھی اس کی کمائی ہوئی آمدنی کا حساب کتاب نہ لکھا، اور نہ ہی اس کی کمائی کا تصرف اس کو دیا، یہاں تک کہ وہ عاقل بالغ ہوا، نہ ہی اس کی کمائی کو اپنی کمائی سے علیحدہ کیا، نہ کبھی اس کی کمائی سے کوئی چیز خرید کر اس کے نام کی، نہ کبھی اس کو اپنی آمدن سے کسی قسم کی جائیداد بنانے کی اجازت دی۔ والد صاحب نے ہمیشہ اس کی آمدن کی نگرانی کی، اس پر نظر رکھی، اس کا تصرف اپنے ہاتھ میں رکھا، اس کی کمائی کو اس سے لے لیا کرتے تھے، اس سے جو چاہے خریدتے تھے اور جہاں چاہے صرف کرتے تھے۔ بھائی کی شادی کے بعد آہستہ آہستہ حالات بدلنا شروع ہوئے، والد صاحب نے یہ جانتے ہوئے کہ اس کے اب اہل و عیال ہیں اس کو اپنی آمدن سے ان پر پورا پورا خرچ کرنے کا تصرف دیا، اس کو اپنی کمائی سے مال خریدنے کی اجازت بھی دی، لیکن ساتھ ہی کل اختیار اپنے پاس

ہی رکھا، وہ جب چاہے اس سے اس کی آمدن کا تقاضا کر لیتے تھے، اور اس کا تصرف بھی اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے۔

اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے یہ کہنا بھی شروع کر دیا کہ صبح سے دو پہر تک اپنا کماتا ہوں اور بیٹا دو پہر سے رات تک اپنا کماتا ہے، اللہ مجھے کبھی بڑھاپے میں اس کا محتاج نہ کرے، جب تک مجھ میں ہمت ہے میں محنت کرتا رہوں گا، اگر محنت کے لائق نہ رہا تو اپنا جمع شدہ مال کا استعمال کرلوں گا، لیکن والد صاحب نے کبھی بھی اس کو کسی قسم کا اختیار نہ دیا، وہ اپنی وفات تک اس کی نگرانی کرتے رہے، کیونکہ وہ والد صاحب کے مال تجارت اور دکان پر ہی کاروبار کرتا تھا، اس کی اپنی کوئی دکان نہ تھی۔

بھائی کا اکثر والد صاحب سے  اس بات پر جھگڑا رہتا تھا کہ وہ 8 سال سے جو پیسہ جمع کر رہا ہے اس کو دے دیں تاکہ وہ اس کو کاروبار میں لگائے، بھائی کے اصرار اور مجبور کرنے کے باوجود والد صاحب نے ہمیشہ اس کو کورا جواب دیا اور یہی کہتے تھے کہ یہ میرے برے وقت میں کام آئے گا، میرے والد صاحب روزانہ باقاعدگی سے اپنی دکان پر جا کر تجارت کرتے تھے سوائے ان دنوں کے جب وہ نہایت علیل ہوتے تھے، انہوں نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل ایک بہت مہنگی دکان اور قیمتی گاڑی بھی خریدی تھی، وہ کافی عرصہ تک اس دکان کا کرایہ وصول کرتے رہے، اس کرائے کی آمدن کا تصرف بھی ان کے ہاتھ میں تھا، قانونی طور بھی وہ دکان اور گاڑی میرے والد کے نام ہیں۔

والد صاحب بھائی سے زیادہ تر خفا رہتے تھے اس کی طبیعت کی وجہ سے ، اور ہفتے میں تقریباً ایک مرتبہ اس کو بمع اہل و عیال ھگھر سے دفع ہو جانے کا نوٹس بھی دے دیتے تھے، اور یہ بھی دھمکی دے دیتے تھے کہ "تو مجھے دکان پر نظر نہ آئے، چل یہاں سے دفع ہو جا، میں اکیلا کاروبار کر سکتا ہوں”۔ مال کے معاملے میں آخری حکم ہمیشہ میرے والد کا ہی ہوتا تھا، اور میرا بھائی یہ بات اچھی طرح سے مانتا تھا کہ حکم کو نہ ماننے کی صورت میں اس کی سزا ملے گی، اور اس کو ہر چیز کو خیر آباد کرنا پڑے گا۔

وفات کے وقت والد صاحب کے قبضے میں مندرجہ ذیل مملوک تھیں، قانونی طور پر بھی یہ ان کے نام تھیں، اور دنیا بھی اس پر گواہ ہے کہ یہ ان کی ملکیت کہلاتی تھیں: (1) بینک میں موجود نقدی جو ان کے نام تھی۔ (2) دکانیں  جو ان کے نام ہیں۔ (3) گاڑیاں  جو ان کےنام ہیں۔ (4) گھر بمع گھریلو سامان وغیرہ۔

والد صاحب کی وفات کے تیسرے دن بھائی نے بھر پور کوشش کرنا شروع کی کہ کسی طرح بینک میں موجود نقدی کو اپنے نام منتقل کروا لے، لیکن  بینک والوں نے ہر دباؤ کے باوجود رقم کو وارثوں میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا، ہر بہن کو 2 لاکھ اور بھائی کو 4 لاکھ دیے، اس کے بعد میرے بھائی نے یہ موقف اختیار کیا:

i۔ والد نے پہلے دن سے مجھے برابر کا حصہ دار بنا کر تجارت شروع کی۔

ii۔ والد صاحب اور بھائی میں یہ طے پایا تھا کہ وہ جب چاہے بچت کی رقم سے خرچ کر سکتا ہے۔

iii۔ ہم دونوں نے شراکت داری میں کاروبا کیا ہے۔

iv۔  والد صاحب نے اعلانیہ طور پر کہا تھا کہ "آمدن میں ہم دونوں برابر کے حصہ دار ہیں۔”

v۔  والد صاحب کی نقدی بھی مشترکہ کاروبار کا نتیجہ ہے اور والد صاحب نے کہا تھا کہ "ہم جب چاہو اس میں سے خرچ کر سکتے ہو۔”

vi۔  والد صاحب بیماری کی وجہ سے 8 سال سے بالکل تجارت نہ کر رہے تھے، اور آٹھ سال سے وہ اکیلا ہی تجارت کر رہا ہے، والد صاحب کو گاڑی اور دکان اس نے اپنی آمدن سے خرید کر دی، وہ ترکہ میں تقسیم نہ ہوں گی، یہ اس کی محنت کی کمائی ہے، والد صاحب نے اس کی محنت کی کمائی ہمیشہ لی ہے، اور وہ رشتے داری کا پاس رکھتے ہوئے وہ کمائی ان کے قدموں میں نچھاور کر دیتا تھا، لیکن یہ میراث میں تقسیم نہ ہوں گی۔

والدصاحب کے نام جو نقدی بینک میں تھی اس میں والد صاحب کا کل اور اصل 3 لاکھ تھا، باقی کے 7 لاکھ اس کی محنت کی کمائی ہے، جو وہ اس سے لے لیا کرتے تھے، اور چونکہ ہم شراکت دار بھی تھے اس لیے یہ ان تین لاکھ کا آدھا ڈیڑھ لاکھ بنتا ہے، تمہارے والد نے صرف ڈیڑھ لاکھ ہی کمایا ہے اور وراثت کا اطلاق صرف ان ڈیڑھ لاکھ پر ہو گا۔ بینک والوں نے تمہیں دو لاکھ دیے ہیں جو تمہارے حق سے کئی گناہ زیادہ ہیں تو تم اس بھیک پر عیش کرو۔ والد صاحب کی بیس سال پرانی گاڑیوں اور ٹوٹے پھوٹے گھریلو سامان کو بھی اگر وراثت میں تقسیم کرنا ہے تو وہ ان دو لاکھ میں شامل کر لو، اور اس کے بعد بھی اگر دیکھو تو یہ دو لاکھ بھی تمہارے حق سے بہت زیادہ ہیں۔ رہا سوال والد کی دکان اور گھر کا تو اس کے قانون دستاویز میں ابہام ہے تو وہ قابلِ تقسیم نہیں ہیں، تو وہ تو میرے قبضے میں ہی رہیں گے۔ اور اب بچا صرف مال تجارت تو اس کی تقسیم اس طرح سے ہے کہ ایک مرتبہ گودام میں آگ لگ گئی تھی تمہارے والد صاحب کا مال جل گیا تھا، وہ جلا ہوا مال آج بھی گودام میں پڑا ہے، اس کو آکر تم لوگ لے لو، میرا گودام بھی صاف ہو جائے گا اور تمہیں تمہاری وراثت بھی مل جائے گی۔

یہ سب میرے بھائی کے موقف اور دلائل تھے۔ والد کی وفات کے بعد ہمیں پہلی بار  معلوم ہوا کہ موصوف والد کے شراکت دار تھے، باپ کو ہر چیز خرید کر دیتے تھے، لیکن والد کی زندگی میں ان کی یہ ہمت جرأت نہ ہوئی کہ ان سے منہ پر یہ دعویٰ کرتے۔

بشرطِ صحت بیان آپ سے گذارش ہے کہ شریعت کی رو سے ان سوالات کا بمع تحریر فتویٰ ارسال فرمائیں:

1۔ ان تمام حالات کو جاننے کے بعد شرعی طور پر بھائی والد کا شراکت دار ثابت ہوتا ہے یا معاون و مددگار؟

2۔ کیا شراکت داری کا tag لگانے سے شراکت داری منعقد ہو جاتی ہے؟ کیا شراکت داری کے اصولوں کی اتباع بے معنیٰ اور بے وقعت چیز ہے؟ کیا شراکت داری منعقد ہو جاتی جب ایک شریک دوسرے شریک کی آمدن کا نہ تو کوئی حساب و کتاب رکھے، نہ اس کو تقسیم کرے، نہ اس شراکت داری کا اعلان کرے، اور پھر ایک شریک دوسرے شریک کا مال لے لے، اس کا تصرف اپنے ہاتھ میں رکھے، اس سے اپنی مرضی کی چیزیں خریدے، شراکت داری کے باطل ہونے میں کیا یہ اہم اصول کافی نہیں؟

3۔ اگر والد صاحب بھائی کے شراکت دار ثابت ہو جاتے ہیں تو والد صاحب کا فعل کس امر پر گواہ ہے کہ وہ غاصب تھے، وہ ظالم تھے، حق چھین لیتے تھے، وہ زیادتی کے مرتکب ہوئے، کیا اللہ کی نظر میں وہ مجرم اور سزا کے مستحق ہیں؟ ان کے لیے کوئی کفارہ تجویز کر دیں۔

4۔        یہ کیسی شراکت داری ہے جس میں ایک شریک دوسرے شریک اور ہر ہفتے ہی دفع ہو جانے کا نوٹس دے دیتا تھا بمع

دھمکی، جو شراکت داری کے عقد کو توڑ دیتا تھا؟

5۔ بالفرض ایک لمحہ کے لیے مان لیا جائے کہ بھائی شراکت دار تھے تو جب کوئی اپنے مال سے کسی کو کوئی چیز خرید کر دیتا ہے اور اس کو اس کے نام بھی کروانے دیتا ہے اور اس کے قبضے میں بھی دیتے دیتا ہے تو شریعت کی رو سے یہ ہبہ بنتا ہے، تو ہبہ کے بارے میں ہمارے نبی کا ارشاد ہے کہ "جس نے ۔۔۔ یہ ایسا ہے  جیسے اس نے اپنی قے کو چاٹا”، تو ہبہ کا اطلاق حیات تک ہی ہوتا ہے، وفات کے بعد ہبہ کرنے والا دعویدار بن کر ہبہ واپس لے سکتا ہے؟ کہ میں یہ وراثت میں تقسیم ہونے نہ دوں گا، یہ تو میری محنت کی کمائی ہے، یہ تو میں نے والد صاحب کو لے کر دی تھی؟

6۔ اگر بالفرض بھائی شراکت دار تصور کر لیئے جائیں تو شریعت کے کیا احکامات ہیں اس مر کے بارے میں کہ ہمارے والد نے شادی سے پہلے، شادی کے وقت، شادی کے بعد ہمیشہ ہی ہمیں دیا ہے، اور شادی کے بعد تو زیادہ دیا ہے، بعض ایسے واقعات بھی ہوئے جس میں صاف بھائی نے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کیا اور والد صاحب کو منع بھی کیا، تو اس صورت میں شریعت ہم بہنوں کو کتنے کا مطلف کرتی ہے جو ہمیں موصوف شراکت دار کو واپس کرنا ہے، کیونکہ والد صاحب نے یہ مال اپنے شراکت دار کی مرضی کے خلف اپنی بیٹیوں میں تقسیم کیا، اور ایک شریک دوسرے شریک کے مرنے کے بعد ہر چیز کو واپس لینے کا شرعی حق رکھتا ہے جو مشترکہ شراکت کا نتیجہ تھی

محترم مفتی صاحب ہم فیصلہ اللہ کی شریعت کی رو سے چاہتے ہیں ہم اپنا مدعا لے کر اللہ کی عدالت میں آئے ہیں، ورنہ دنیا کی عدالت میں بھائی سے ایک ایک چیز تقسیم کروانا ہمارے لیے بہت سہل ہے، ہر چیز ہمارے والد کے نام ہے، اگر ہم نے بھائی کا کوئی حق مارا ہے، اس کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں یا بقول ان کے کہ ہمیں ہمارے حق سے زیادہ ملا ہے، تو ہم وہ تمام زائد مال اس کو واپس کر دیں گے، ہمیں تو اس کی دی گئی بھیک چاہے نہ ہی ایک روپے کا احسان۔ برائے مہربانی بتا دیں کہ شریعت کی رو سے ہم کتنے کے مکلف ہیں؟ شادی سے پہے جو مال ہم پر والد صاحب خرچہ کیا اس وقت سے حساب لگانا شروع کریں؟ اور اگر بھائی غاصب بن کر حق مار رہا ہے اور ظلم کر رہا ہے تو اس کی وعید و سزا سنا دیں، ہمارے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے، ہم نے اللہ کو اپنا جج ، اپنا وکیل، اپنا ہمدرد بنایا ہے اور اس کے کیے گئے انصاف اور فیصلے کے منتظر رہیں گے۔  "بے اس کی پکڑ بہت شدید ہے اور اس کی لاٹھی بے آواز”۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہمارے زمانے میں حالات بدلے ہوئے ہیں عام طور سے باپ کے ساتھ مل کر کام کرنے والے بیٹے بھی یہ دیکھتے ہیں کہ ان کو کیا ملے گا اور کیا مل رہا ہے؟ اس لیے مذکورہ صورت میں کاروبار اور بنیادی سرمایہ چونکہ باپ کا تھا اور باپ کی محنت بھی شامل تھی اس لیے کل ترکہ کے تین حصے کریں گے، ایک حصہ باپ کے سرمایہ کا، ایک باپ کی محنت کا اور بیٹے کی محنت کا۔

بیٹے نے کوئی بڑا خرچہ کیا ہو تو وہ اس کے حساب میں شامل کیا جائے گا اسی طرح باپ نے کوئی بڑا خرچہ کیا ہو مثلاً بیٹیوں کو بڑی رقم دی ہو تو وہ باپ کے حساب میں شمار ہو گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved