- فتوی نمبر: 7-341
- تاریخ: 29 ستمبر 2015
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
1۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص***کا انتقال ہوتا ہے اور اس کی اولاد میں تین بیٹے (******)، اور دو بیٹیاں (****) ہیں، تو***کی وراثت کیسے تقسیم ہو گی؟
2۔ اگر تقسیمِ وراثت کے بعد ایک بیٹے انور کا انتقال ہو جاتا ہے، تو اس کی صرف تین بیٹیاں ہونے کی صورت میں اس کی وراثت میں سے کچھ حصہ بھائیوں کو واپس ملے گا؟
3۔ اگر***کی وراثت کا کچھ حصہ اس وقت تقسیم ہو چکا ہے، جبکہ اس کے بیٹے انور کا بھی انتقال ہو چکا ہے، اور** کی بیوہ اور تین بیٹیاں موجود ہیں، کیونکہ یہ شخص نرینہ اولاد سے محروم ہے، تو اب اس حصہ کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہو گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں مرحوم عبداللہ کی کل وراثت کو 576حصوں میں تقسیم کر کے 154 حصے مرحوم کے بیٹے**کو، اور 154 حصے مرحوم کے بیٹے** کو، اور 77 حصے مرحوم کی بیٹ**کو، اور 77 حصے مرحوم کی بیٹی** کو، اور18 حصے مرحوم**کی بیوی کو، اور 32۔ 32 حصے مرحوم ** کی ہر بیٹی کو ملیں گے۔
2۔ مذکورہ صورت میں انور کی وراثت میں انور کے بہن بھائیوں کو بھی حصہ ملے گا۔
3۔ تقسم شدہ حصے کو بھی مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق تقسیم کریں۔
صورت تقسیم یہ ہے:
8x 72= 576 ***
بیٹا **
2 |
بیٹا ا** بیٹا ** بیٹی**بیٹی **
2×72 2×72 1×72 1×72
144 144 72 72
24×6= 144 انور 2×72= 144
بیوی 3 بیٹیاں 2 بھائی(** ،**) 2 بہنیں (**،**)
1/8 2/3 عصبہ
3×6 16×6 5×6
36 96 30
36 32+32+32 10+10 5+5 فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved