• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تقسیم میراث کے وقت خاموش رہنے سے حق میراث کا ساقط ہونا

استفتاء

*** کے پردادا کا انتقال ہوا، اس نے ترکہ میں زمین چھوڑی، ……*** کے پر دادا کے ورثاء میں دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں، ……پھر *** کے دادا کاانتقال ہوا، اس کے وارث : تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، ……اب زمین کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا، جس وقت زمین کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا تھا، اس وقت ***کے والد کی تین پھوپھیاں زندہ تھی اور دو فوت ہو چکی تھیں، ……*** کے والد نے اپنی تین پھوپھیوں سے کہا کہ آپ اپنا حصہ لے لیں، …انہوں نے جواب دیا کہ ہم اپنا حصہ اپنے تینوں بھتیجوں (یعنی: *** کے والد اور اس کے دو چچا )کو دینا چاہتی ہیں، …اس پر انہوں نے دستخط بھی کر دئیے، …تقسیم کے وقت *** کے والد کی دو پھوپھیاں فوت ہو چکی تھیں، …*** کے والد ان کی اولاد کے پا س گئے، ان کی اولاد میں سے کچھ یہاں موجود تھے اور کچھ یہاں موجود نہیں تھے، ان میں سے جو موجود تھے، ان میں سے بعض نے دستخط کئے اور بعض نے نہیں کئے، جنہوں نے نہیں کئے وہ چپ رہے اور جو موجود نہیں تھے انہوں نے بھی دستخط نہیں کئے، …اور تقسیم کے علم کے باوجود خاموش رہے، …اور اب *** کے والد اپنی دونوں ہمشیرہ کے پاس گئے، ان سے کہاکہ اپنا حصہ لو، انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا حصہ اپنے تینوں بھائیوں یعنی: *** کے والد اور اس کے دو چچا کو دے دیا ہے، یہ ملحوظ رہے کہ *** کے والد کے جو ایک چچا تھے انہوں نے اپنا حصہ لے لیا تھا، اب ان تینوں بھائیوں نے آپس میں زمین کی تقسیم کر لی، *** کے والد نے اپنے حصے کی زمین بیچ دی، جب کہ اس کے دو چچا نے اپنی کچھ زمین بیچ دی اور کچھ ان کے پاس باقی ہے، اب *** کے والد کے پھوپھی زاد میں سے جو موجود نہیں تھے، ان میں ایک نے مطالبہ کیا کہ میری والدہ کے حصے میں سے جو میرا حصہ بنتا ہے وہ مجھے دو، جس وقت اس نے مطالبہ کیا اس وقت *** کے والد کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔

مذکورہ بالا مسئلہ میں قابل ِ استفسار امور یہ ہیں:

١۔  الف: کیا اس مطالِب کا *** اور اس کے بھائیوں سے مطالبہ کرنا صحیح ہے؟ جب کہ *** کے والد کا انتقال بھی ہو چکا ہے، اور بیچی ہوئی زمین کی رقم بھی وہ اپنی زندگی میں استعمال کر چکے ہیں۔

ب: اگر مطالبہ بنتا ہے تو قیمت کس وقت کی لگائی جائے گی؟…اور اگر *** اور اس کے بھائیوں سے مطالبہ نہیں بنتاتو کیا اخلاقاً *** اور اس کے بھائیوں پر ضروری ہے کہ اس کا مطالبہ پورا کریں، تا کہ قیامت کے دن ، ان کا والد سبکدوش ہو سکے؟

٢۔ کیا اس مطالِب کا *** کے دو چچاؤں سے مطالبہ کرنا درست ہے؟

٣۔ کیا *** اور اس کے بھائیوں کے اوپر شرعاً یا اخلاقاً یہ ذمہ داری آتی ہے کہ وہ ان لوگوں سے وضاحت لیں، جنہوں نے تقسیم کے وقت علم کے باوجود کوئی وضاحت نہیں کی، اور خاموش رہے، یہ بات بھی سامنے رہے، کہ *** کا والد تقسیم کے بعد چار سال زندہ رہا، لیکن انہوں نے اس وقت کوئی مطالبہ نہیں کیا۔

٤۔ جو لوگ تقسیم کے وقت خاموش رہے، ان کا مطالبہ کرنے کا کوئی آخری وقت بھی ہے یا ان کے اس طرح مطالبہ کرنے کا یہ حق نسل در نسل چلتا رہے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

الف: اس  مطالب کا *** اور اس کے بھائیوں سے مطالبہ کرنا صحیح ہے۔ کیونکہ *** کے والد کے تصرفات پر اطلاع کے باوجود مطالب کے خاموش رہنے سے ان کا حق میراث ساقط نہیں ہوتا۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

ثم اعلم أن عدم سماع الدعوی بعد مضي ثلاثين سنة أو بعد الاطلاع علی التصرف ليس مبنيا علی بطلان الحق في ذلك، و إنما هو مجرد منع للقضاة عن سماع الدعوی مع بقاء الحق لصاحبه، حتی لو أقر به الخصم يلزمه، و لو كان ذلك حكماً ببطلانه لم يلزمه، و يدل علی ما قلناه تعليلهم للمنع بقطع التزوير و الحيل كما مر، فلا يرد ما في قضاء الأشباه من أن الحق لا يسقط بتقادم الزمان. (11/ 622)

ب:(1) جو زمین ابھی تک فروخت نہیں ہوئی (مثلاً چچاؤں کی زمین) اس کی موجودہ قیمت لگائی جائے گی۔( 2) جو زمین فروخت ہو چکی، اس میں اسی قیمت کا اعتبار ہو گا، جتنے میں وہ فروخت ہوئی۔ البتہ اگر اب تک زمین کی قیمتوں میں اچھا خاصا فرق آچکا ہو تو پھر مطالب کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ بجائے رقم کے اتنی چاندی کا مطالبہ کرے، جو زمین فروخت ہونے کے وقت اس رقم کی بنتی تھی۔

2۔ اس مطالب کا *** کے دو چچاؤں سے مطالبہ کرنا بھی درست ہے۔

3۔ *** اور اس کے بھائیوں کے لیے، نیز *** کے چچوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ کم از کم اب ان لوگوں سے وضاحت لے لیں جو تقسیم کے وقت علم کے باوجود خاموش رہے۔

4۔ ان کے مطالبہ کرنے کا آخری وقت قضاءً تو مقرر ہے، لیکن دیانتاً مقرر نہیں۔ اور دیانتاً ان کے مطالبہ کرنے کا حق نسل در نسل چلتا  رہے گا۔

نوٹ: اگرچہ سوال صرف مطالبہ کرنے والے سے متعلق ہے، لیکن یہ ساری تفصیل ان لوگوں سے متعلق بھی ہے، جو خاموش رہے، اور فی الحال مطالبہ نہیں کر رہے، خواہ وہ فوت شدہ پھوپھیوں کے بیٹے ہوں، یا ان کی بیٹیاں ہوں، یا پھوپھیوں کے شوہر ہوں۔

نیز جن پھوپھیوں نے دستخط کر دیے تھے، ان کا یا ان کی اولاد کا حق بھی بنتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں اسی وقت کچھ کہا جا سکتا ہے، جب وہ تحریر سامنے ہو، جس پر انہوں نے دستخط کیے تھے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved