- فتوی نمبر: 9-78
- تاریخ: 06 جون 2016
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
محترم مفتی صاحب! مسئلہ یوں در پیش ہے کہ میرے خالو 16 دسمبر 2015ء کو وفات پا گئے تھے، خالہ عدت پوری کرتے ہی 26 اپریل کو بیمار ہو گئیں اور 16 مئی کو وفات پا گئیں۔ خالو کوئی کام نہیں کرتے تھے خالہ سرکاری ملازمہ تھیں۔ جائیداد میں ایک مکان ہے جو کہ خالہ کے نام ہے اور خالہ نے اپنے پیسوں سے خریدا تھا، خالہ نے ایک لڑکی جس کا نسب معلوم نہیں، لے کر پالی تھی ایک سال قبل اس کی شادی ہو گئی ہے۔ خالہ وفات سے پہلے اپنا سب کچھ اس کے نام کرنا چاہتی تھیں لیکن موقعہ نہیں ملا اور سسرال والوں کو خالہ نے یہ نہیں بتایا کہ یہ میری حقیقی بیٹی نہیں اور ابھی تک ان کو پتہ نہیں۔ یہ لڑکی سرکاری کاغذات میں ان کی بیٹی ہے اور سسرال والوں کو بھی یہی معلوم ہے۔ خالہ کے حقیقی وارث ایک بھائی ہے اور ایک بہن ہے۔ بہن اپنا حصہ لڑکی کو دینے کو تیار ہے اور ماموں اپنا حصہ دینے کو پہلے تیار ہو گیا تھا مگر اب وہ انکار کر رہا ہے۔
1۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ میراث کیسے تقسیم کی جائے؟ اگر لڑکی کو کچھ نہ دیاجائے تو سسرال میں اسکے رشتے میں مسائل ہو سکتے ہیں۔
2۔ کیا بھانجوں کا خالہ کی میراث میں حصہ ہے؟
3۔ خالہ وفات سے پہلے بیمار تھیں ان کا علاج ان کے داماد (یعنی لے پالک لڑکی کے شوہر) نے کرایا تھا جو تقربیاً پونے دو لاکھ روپے میں ہوا تھا اس کا کیا حساب ہو گا؟
4۔ خالہ کی ایسی جائیداد جس کو لڑکی کے سسرال والے واگزار کروا رہے ہیں اور اس کو واگزار کروانے میں کسی میں بھی اہلیت نہیں، کیا اس میں وراثت کیسے لاگو ہو گی۔
5۔ مرحومہ کی جو نمازیں دوران بیماری ادا نہ ہو سکیں۔ کیا ان کا فدیہ ان کے مال سے دیا جا سکتا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں
1۔ بہن اپنا حصہ لڑکی کو دینے پر تیار ہے۔ ماموں سے بھی کہہ سن کر کچھ لڑکی کو دلوا دیا جائے یا کوئی اور کچھ رقم اس لڑکی کو دیدے۔ ایسا کرنے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
2۔ مذکورہ صورت میں بھانجوں کا خالہ کی میراث میں حصہ نہیں کیونکہ خالہ کا بھائی اور بہن حیات ہیں۔
3۔ داماد نے یہ خرچہ واپس لینے کی نیت سے کیا تھا تو وہ میراث میں سے اپنا یہ خرچہ واپس لے سکتا ہے اور اگر محض رشتہ داری اور ثواب کی نیت سے کیا تھا تو داماد کے لیے یہ خرچہ واپس لینا درست نہیں۔
4۔ اس میں بھی وراثت تو صرف آپ کی خالہ کے بھائی اور بہن کی ہی ہو گی۔ اور پھر وہ چاہیں تو اپنا کل حصہ یا بعض حصہ لڑکی کو دیدیں تاکہ کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ البتہ سسرال والے اس جائیداد کو واگزار کروانے پر ورثاء سے کچھ اجرت طے کر کے لے سکتے ہیں۔
5۔ مرحومہ نے وصیت کی ہو یا ورثاء دینے پر رضا مند ہوں تو ان نمازوں کا فدیہ ان کے مال سے دے سکتے ہیں۔
و في رد المحتار (2/ 644):
و لو مات و عليه صلوات فائتة و أوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف من بر كالفطرة و تحته في الشامية: أو لم يوص بشيء و أراد الولي التبرع .. و أشار بالتبرع إلى أن ذلك ليس بواجب على الولي و نص عليه في تبيين المحارم فقال: لا يجب على الولي.
© Copyright 2024, All Rights Reserved