• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشترکہ فلیٹوں کے رنگ کا خرچہ کس کے ذمے ہوگا

استفتاء

ہمارے اپارٹمنٹ کی چار منزلہ سیڑھیاں ہیں  اپارٹمنٹ  دس فلیٹ  پر مشتمل ہے اور سب  فلیٹ استعمال میں ہیں اس کے رنگ و روغن کا خیال آیا تو اخراجات کے تخمینے کو دس فلیٹ پر تقسیم کردیا گیا سوائے ایک کے سب راضی تھے لہذا کام کو مکمل کیا گیا اور نو فلیٹ والوں  کی جو رقم آئی اس سے دس فلیٹ والوں کا کام کرادیا گیا معلوم یہ کرنا ہے کہ جن صاحب نے پیسے نہیں دیئے انکے اخراجات نو فلیٹ والوں  میں  تقسیم کے جاسکتے ہیں ؟یا  جو نہیں دے رہے ان سے بھی کوئی معاوضہ ہوگا کیونکہ یہ انفرادی نہیں اجتماعی عمل ہے  ۔

وضاحت مطلوب ہے: ان فلیٹ والوں کو اس کا علم تھا کہ ایک راضی نہیں ہے ؟ اور وہ اس پر راضی تھے؟

جواب وضاحت: کچھ کو علم تھا اور کچھ کو نہیں تھا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر اکثر فلیٹ والے سیڑھیوں کے رنگ وروغن کروانے  کو ضروری سمجھتے تھے اور اس پر راضی تھے تو  خرچہ سب فلیٹ والوں پر تقسیم کیا جائے گا ورنہ جو راضی تھے صرف انہی پر ہوگا۔

الدر المختار مع ردالمحتار (10/21) میں ہے:

«(وكري نهر) أي حفره (‌غير ‌مملوك ‌من ‌بيت ‌المال، فإن لم يكن ثمة) أي في بيت المال (شئ يجبر الناس على كريه إن امتنعوا عنه دفعا للضرر) (وكري) النهر (المملوك على أهله ويجبر من أبى منهم) على ذلك (وقيل في الخاص لا يجبر) وهل يرجعون؟ إن بأمر القاضي نعم»

وفي الشامية: (قوله ‌وكري ‌نهر) وكذا إصلاح مسناته إن خيف منها تتارخانية (قوله أي حفره) قال القهستاني: كري النهر إخراج الطين ونحوه منه

(قوله إن بأمر القاضي نعم) أي أمره الباقين بكري نصيب الآبي على أن يستوفوا ‌مؤنة ‌الكري من نصيبه من الشرب مقدار ما يبلغ قيمة ما أنفقوا عليه ذخيرة، وفيها: وإن لم يرفعوا الأمر إلى القاضي، هل يرجعون على الآبي بقسطه من النفقة، ويمنع الآبي من شربه، حتى يؤدي ما عليه قيل: نعم وقيل: لا وذكر في عيون المسائل: أن الأول قول أبي حنيفة وأبي يوسف فليتأمل عند الفتوى اهـ ملخصا، ومثله في التتارخانية والبزازية وظاهره: أنه لا ترجيح لأحد القولين، فلذا خيروا المفتي

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved