- فتوی نمبر: 33-146
- تاریخ: 17 مئی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وقف کا بیان > مدارس کے احکام
استفتاء
ایک بندے نے مدرسہ بنایا بعد میں اسکو فالج ہو گیا اب آیا وہ مسجد سے اور مدرسہ سے تنخواہ یا اور کسی مد میں رقم لے سکتا ہے یا نہیں ؟
وضاحت مطلوب ہے: سائل کون ہے؟ مذکورہ شخص مدرسہ کی کوئی خدمت کرتا ہے یعنی کوئی انتظامی یا تعلیمی کام مدرسے میں کرتا ہے؟
جواب وضاحت: سائل مفتی عالم اور بانی و مہتمم ہے مدرسہ کی نگرانی کرتا ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: فالج ہونے سے پہلے کیا ذمہ داریاں تھیں؟2۔ فالج ہونے سے پہلے تنخواہ لیتے تھے یا نہیں؟3۔مسجد سے تنخواہ لینے کی کیا وجہ ہے؟
جواب وضاحت:1۔پوری ذمہ داری مثلاً پڑھانا، اہتمام، سفر وغیرہ اور مسجد کی امامت وخطابت وغیرہ۔2۔ فالج ہونے سے پہلے مسجد اور مدرسے سے تنخواہ لیتےتھے۔
مزید وضاحت مطلوب ہے: مسجد اور مدرسے کی اب کیا ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں؟
جواب وضاحت: صرف نگرانی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں شوریٰ کے احباب سے اس نگرانی کا مناسب معاوضہ طے کرواکر لیا جاسکتا ہے اگر کوئی کمیٹی یا شوریٰ نہیں تو مدرسے کے معتبر اساتذہ کو اعتماد میں لے کر مشورے سے مناسب وظیفہ طے کرکے لے سکتے ہیں۔
ہندیہ(2/461) میں ہے:
وللمتولي أن يستأجر من يخدم المسجد يكنسه ونحو ذلك بأجر مثله أو زيادة يتغابن فيها فإن كان أكثر فالإجارة له وعليه الدفع من مال نفسه ويضمن لو دفع من مال الوقف
سئل الفقيه أبو القاسم عن قيم مسجد جعله القاضي قيما على غلاتها وجعل له شيئا معلوما يأخذه كل سنة حل له الأخذ إن كان مقدار أجر مثله، كذا في المحيط
البحر الرائق (8/4) میں ہے:
وإجارة الوقف ومال اليتيم لا يجوز إلا بأجر المثل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved