• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قربانی میں وکیل کا مؤکل کے حکم کی مخالفت کرنا

استفتاء

زید نےا قبال کو قربانی کا وکیل بنایا اور پوری ایک گائے قربانی کرنے کی ذمہ داری  دی لیکن اقبال نے گائے نہ ملنے کی وجہ سے زید سے پوچھے بغیر سات بکرے قربان کردیئے تو کیا اس طرح زید اور اس کے اہل خانہ کی قربانی ہوگئی یا دوبارہ کرنی پڑے گی؟

وضاحت مطلوب ہے: زید نے اقبال کو ایک حصہ کی قربانی کا وکیل بنایا تھا  یا سات حصوں کی قربانی کا؟

جواب وضاحت: سات حصوں کی قربانی کا وکیل بنایا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں زید اور اس کے اہل خانہ کی قربانی ہوگئی  بشرطیکہ جو بکرے خریدے تھے وہ گائے کی قیمت کے برابر ہوں یا زائد قیمت کے ہوں تو زائد قیمت اقبال نے اپنے پاس سے تبرعاً دیدی ہو۔

توجیہ:اصول یہ ہے کہ جب بکرے  اور گائےکے ساتویں حصےکی قیمت  ایک جیسی  ہواور ان کے گوشت کا وزن بھی ایک جیسا ہو تو پھر جس کا گوشت زیادہ عمدہ ہو اس کی قربانی افضل ہےاور اگر قیمت  اور گوشت میں فرق ہو تو پھر جس کی قیمت زیادہ ہو اس کی قربانی افضل ہے ہمارے علاقوں میں  چونکہ بکرے کا گوشت عمدہ بھی  ہوتا ہے اورقیمت میں  مہنگا بھی ہوتا ہےاس لیے بکرے کی قربانی گائے کے ساتویں حصے سے افضل ہےاور آج کل لوگ بھی بکرےکی قربانی میں رغبت زیادہ رکھتے ہیں  لہذا  مذکورہ صورت میں اگر چہ اقبال نے اپنے مؤکل (زید )کی مخالفت کی ہے لیکن یہ مخالفت الی الافضل ہے   اور مخالفت الی الافضل سے وکالت ختم نہیں ہوتی اور  جب وکالت باقی ہے تو  زید کی قربانی درست ہوگی  ۔

المحیط البرہانی(6/94)میں ہے:

والخصي أفضل من الفحل؛ لأنه أطيب لحما؛ قال الشيخ أبو محمد الجرمسى رحمه الله: البقرة أفضل من الشاة في الأضحية إذا استويا في القيمة؛ لأنها أعظم وأكبر، والشاة أفضل من سبع البقرة إذا استويا في القيمة واللحم؛ لأن لحم الشاة أفضل من سبع البقرة، وإذا كان سبع البقرة أكثر لحما، فسبع البقرة أفضل، والأصل في هذا أنهما إذا استويا في اللحم والقيمة فأطيبهما لحما أفضل، وإذا اختلفا في القيمة واللحم، فالفاضل أولى.

إذا ثبت هذا، فنقول الفحل بعشرين، وذلك قيمته أفضل من خصي بخمسة عشر، وإن كان الخصي أطيب لحما؛ لأن الآخر أكثر عينا؛ وإن استويا في القيمة واللحم فالكبش أفضل، وكذا الكبش والنعجة إذا استويا في القيمة واللحم، فالكبش أفضل، وإن كانت النعجة أكثر قيمة او لحما فهو أفضل، والذكر من الضأن أفضل إذا استويا؛ لأنه أطيب لحما، والأنثى من البعير كذلك، والبقرة أفضل من ست شياه إذا استويا، وسبع شياه أفضل من البقرة.في أضاحي الزعفراني: البعير أفضل من البقر؛ لأنه أعظم

شامی (6/ 335)میں ہے:

(قوله ‌ولو ‌قال ‌سوداء) بالمد والتنوين للضرورة، والضمير في كان للقول، وقرناء بالمد وعينا بالقصر. والأقرن: العظيم القرن. والأعين: ما عظم سواد عينيه في سعة. قال في الشرنبلالي: والبيت من الظهيرية. وكله بشراء بقرة سوداء للأضحية فاشترى بيضاء أو حمراء أو بلقاء وهي التي اجتمع فيها السواد والبياض لزم الآمر وإن وكله بشراء كبش أقرن أعين للأضحية فاشترى أجم ليس أعين لا يلزم الآمر؛ لأن هذا مما يرغب للأضحية فخالف أمره.

قال الناظم: ينبغي أنه إذا أمره بشراء بيضاء فاشترى سوداء أن لا يقع للآمر. قلت: وهذا هو الصواب وقد أسقط الكاتب لا النافية من نسخة المصنف وتبعه الشارح ابن الشحنة يرشد إليه قول الناظم لأن لون أضحية رسول الله  صلى الله عليه وسلم  كان أبيض ولأنه أحسن الألوان فينبغي أن يكون أفضل، ولما روي عن مولاة ورقة بنت سعد أنها قالت قال رسول الله  صلى الله عليه وسلم «دم عفراء أزكى عند الله من دم سوداء» وقال أبو هريرة رضي الله عنه: دم بيضاء أزكى عند الله من دم سوداء اهـ فالدليل يخالف مدعاه بإسقاط لا النافية لأن البياض أزكى من غيره، والعفراء أزكى من السوداء فكيف يلزم بالآمر مع المخالفة انتهي.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved