• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زمین کی خرید وفروخت میں درخت شامل ہوں گے یا نہیں؟

استفتاء

عرض ہے کہ ایک ایکڑ رقبہ  والد صاحب کے نام پر ہے والد کے انتقال کے بعد وہ رقبہ ایک بھائی نے اپنے پاس رکھ لیا ہے اور اس کے ٹھیکے کے پیسے ہر سال بھائیوں میں تقسیم کر دیتا ہے، رقبہ مشترکہ ہے جس کی ایک سائیڈ (جانب)پر کھالہ (پانی گزرنے کا چھوٹا نالہ)گزر رہا ہے جس سے رقبے کو پانی لگایا جاتا ہے کھالے کے کنارے پر اور رقبے کے کنارے پر چند درخت لگے ہوئے ہیں درخت پرانے ہیں کچھ کاٹ کر تقسیم کر دیے ہیں اور کچھ باقی ہیں  جہاں سے درخت کاٹے گئے ہیں وہاں نئی شاخیں اُگ کر دوبارہ کاٹنے کے قابل ہو گئی ہیں ،زمین کی پیمائش کی گئی تو ہر ایک کے حصے میں 24 مرلے آنے تھےاور والدہ کا حصہ بھی اس میں الگ سے موجود ہے ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو 2018 میں20 مرلے بیچے ہیں چار مرلے اس کے ابھی موجود ہیں۔ 2021 میں والدہ کا انتقال ہوا ان کا رقبہ تقسیم کیا گیا تو ہر ایک کے حصے میں چار مرلے آئے۔ جس بھائی نے رقبہ بیچا ہوا ہے اس کے حصے میں اب آٹھ مرلے ہو گئے ہیں۔ یہ رقبہ گھر سے تھوڑا سا دور ہے، جس نے رقبہ بیچا ہے اس نے ایک اور بھائی سے آٹھ مرلے کا برابری کی بنیاد پر سودا کیا ہوا ہے  یعنی گھر کے قریب آٹھ مرلے لے کر وہ آٹھ مرلے اس بھائی کو دے دیے ہیں اب اس کے پاس وہاں پر کوئی زمین نہیں ہے ۔ رقبے کا سودا دسمبر 2025 میں ہوا ہے رقبہ ابھی بھی وہی ایک بھائی کاشت کرتا ہے اور پیسے باقی بھائیوں کو تقسیم کر دیتا ہے ابھی تک اس زمین میں کوئی حد بندی نہیں کی گئی کہ یہاں سے یہاں تک اس بھائی کا وہاں سے وہاں تک اس بھائی کا ہے، اور کوئی نیا درخت بھی نہیں لگایا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو وراثت میں درخت ملے تھے اب 20 دن پہلے وہ بیچ دیے ہیں کیا ان درختوں کے پیسے اس بھائی کو ملیں گے جس نے زمین بیچی ہوئی تھی یا نہیں ملیں گے یاد رہے کہ زمین میں کوئی درخت نہیں لگائے گئے درخت وہی پرانے ہیں اور زمین کی حد بندی بھی نہیں کی گئی۔ مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے: کیا زمین کی خرید و فروخت میں درختوں کا تذکرہ کیا گیا تھا۔

جواب وضاحت : نہیں کوئی تذکرہ نہیں ہوا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  صورت میں جس بھائی نے اپنی ساری زمین بیچ دی ہے تو اس میں درخت بھی شامل ہوں گے۔لہذا اب اس کو مزید پیسے نہیں ملیں گے۔

تو جیہ:زمین کی خرید و فروخت میں وہ درخت جو اس میں لگے ہوئے ہوں شامل ہوتے ہیں اگرچہ واضح طور پر ان کا ذکر نہ کیا جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درخت زمین پر باقی رہنے کے لیے اگائے جاتے ہیں نہ کہ الگ ہونے کے لیے لہذا درختوں کی مثال زمین پر عمارت کی طرح ہے کہ جس طرح زمین کی خرید و فروخت میں اس پر بنی ہوئی عمارت خود بخود شامل ہوتی ہے چاہے اس کا ذکر نہ ہو ایسے ہی زمین پر لگے ہوئے درخت بھی زمین کی خرید و فروخت میں شامل ہوتے ہیں۔

ہدایہ (3/26) میں ہے:

“‌ومن ‌باع ‌أرضا دخل ما فيها من النخل والشجر وإن لم يسمه” لأنه متصل بها للقرار فأشبه البناء

فتاویٰ قاضی خان (2/123) میں ہے:

رجل إشترى أرضا فيها أشجار ولم يذكر شيئا دخل الأشجار المثمرة واختلفوا فى غير المثمرة والصحيح أنها تدخل.

ہندیہ (3/33) میں ہے:

‌إذا ‌باع ‌أرضا ‌أو ‌كرما ولم يذكر الحقوق ولا المرافق ولا كل قليل وكثير فإنه يدخل تحت البيع ما ركب فيها للتأبيد نحو الغراس والأشجار والأبنية كذا في الذخيرة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved