- فتوی نمبر: 31-153
- تاریخ: 22 جولائی 2025
- عنوانات: عبادات > نماز > اذان و اقامت کا بیان
استفتاء
مفتی صاحب ایک مسئلہ درپیش ہے کہ ہماری مسجد میں اذان فجر کے بعد ایک نمازی اعلان کرتاہے کہ جماعت میں تھوڑا وقت باقی ہے جلدی جلدی مسجد پہنچ جاؤ اور تھوڑا سا بیان بھی کرتا ہے اور اس آدمی کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ نماز فجر کی اذان اور جماعت کے درمیان کافی وقفہ ہوتا ہے تو اس لیے اعلان کرنا ضروری ہے تاکہ لوگ نیند سے اٹھ جائیں اور جماعت کی نماز میں شریک ہو جائیں۔ سوال یہ ہے کہ اس آدمی کا یہ عمل شرعا درست ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ صورت میں یہ اعلان کرنا جائز نہیں۔
2۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مبارک زمانوں میں نماز کی اطلاع کے لیے اذان کو مسجد سے باہر کے لوگوں کے لیے اور اقامت کو مسجد میں موجود افراد کے لیے کافی سمجھا گیا ہے اس لیے اسی پر اکتفاء کیا جائے ، اس غرض سے بیان علیحدہ سے نہ کیا جائے۔
امداد الاحکام (1/433) میں ہے:
سوال: اذان میں تثویب کی کیا صورت ہے اور تثویب کے معنی کیا ہیں ؟
الجواب : اذان میں تشویب مسنون تو یہ ہے کہ اذان فجر میں” الصلوة خیر من النوم” اضافہ کیا جائے ، اور تثویب مبتدع ایک تو اذان میں ہے کہ “حی علی خیر العمل “اضافہ کیا جائے جیسا روافض کرتے ہیں، اور ایک ما بین الاذان والاقامہ ہے کہ موذن تھوڑی دیر میں “ الصلاة جامعة يا الصلاة الصلاة رحمكم الله “پکارتا ہے، یہ دونوں بدعت ومکروہ ہیں، والاول اشد ابتدا عا وكراهة
کفایت المفتی (3/55) میں ہے:
جواب: تثویب اس معنی کے لحاظ سے کہ اس سے مراد اذان اور اقامت کے درمیان میں کچھ الفاظ پکار کر لوگوں کو نماز کے لئے بلانا مد نظر ہو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے زمانہ میں اذان اور اقامت کے درمیان میں ایسی کوئی چیز نہ تھی نہ حضور صلى الله علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی اس کو لوگوں نے بعد حضور صلى الله علیہ وسلم کے ایجاد کیا اور صحابہ نے اس کا انکار کیا حضرت عبداللہ ابن عمر نماز کے لئے ایک مسجد میں گئے اور وہاں تثویب پکاری گئی تو وہ اس مسجد میں بغیر نماز پڑھے چلے آئے اور کہا کہ اس مبتدع کے پاس سے مجھے لے چلو ۔یہ واقعہ ترمذی اور ابو داؤد میں موجود ہے۔ امام ابو یوسف نے قاضی یا مفتی یا کسی ایسے ہی شخص کے لئے جو خدمت مسلمین میں مشغول رہتا ہو اس امر کی اجازت دی ہے کہ اس کو اقامت سے کچھ قبل اطلاع دیدی جایا کرے تو وہ جماعت میں شریک ہو جائے اور خدمت خلق میں نقصان نہ پڑے ان کی اجازت کا بھی یہ مطلب نہیں کہ اذان اور اقامت کے در میان تثویب کی رسم ہی قائم کر لی جائے اور پھر طرفہ یہ کہ اس کو ایک واجب کا درجہ دے دیا جائے اور منکریا تارک کو وہابی مردود کہہ کر لعن طعن کیا جائے یہ تو یقینی تعدی اور ظلم اور انتہائی بدعت ہے۔
فتاوی محمودیہ (21/490) میں ہے:
سوال: ہمارے ہاں قصبے کی مسجد میں روزانہ فجر کی اذان کے بعد ایک یا دورکوع پڑھتے ہیں اس کے بعد نظم پڑھتے ہیں جماعت ہونے سے دس پندرہ منٹ پہلے رک جاتے ہیں اس نیت سے کہ لوگوں کو فجر کی نماز جماعت سے مل جائے کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟
جواب: یہ پڑھناغالبا ریڈیو اور اسپیکر پر ہوتا ہوگا ایسے وقت پر کچھ لوگ سو رہے ہوں گے کچھ ضروریات میں مشغول ہوں گےقرآن پاک کی طرف توجہ دینے سے قاصر ہوں گے،اس لیے اس کو ترک کیا جائے، ویسے ہی نماز کے واسطے بلانے کے لیے شریعت نے اذان تجویز کی ہے، ریڈیو اسپیکر پر قرآن پاک اور نظم پڑھنا تجویز نہیں کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved