- فتوی نمبر: 24-353
- تاریخ: 24 اپریل 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > پردے کا بیان
استفتاء
1-عورت کی آواز کے پردے کا کیا حکم ہے ؟
2-کیا عورت مرد کو قرآن پڑھا سکتی ہےاگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ؟
3-کیا عورت کے بیانات مرد سن سکتا ہے؟
4-کیا باپردہ عورت سوشل میڈیا فیس بک وغیرہ پر درس دے سکتی ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1-عورت کی آواز کا شرعاً پردہ تو نہیں ہے مگر مردوں کے لیے عورت کی آواز باعث فتنہ ہونے کی وجہ سے بلا ضرورت مردوں تک عورت کی آواز کا پہنچانا جائز نہیں ہے۔
2-اجنبی عورت کومردکو قرآن پڑھانے سے اجتناب کرنا چاہیےکیونکہ مرد کو قرآن پڑھانے کے لیے مرد میسر ہیں لہذا اس سے بچنا چاہیے۔
3-مردوں کےلیے بلا وجہ عورت کی آواز سننا فتنہ کے اندیشے کی وجہ سے صحیح نہیں اس لیےمرد کو اجنبی عورتوں کے بیان سننے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
4-آج کل کے دور میں دین اسلام کی خدمت کرنے کے لیےایک عام مسلمان کے لیے محفوظ ذریعہ تبلیغی جماعت ہے،جس کے فوائد کسی سے مخفی نہیں ہیں،اس کے بجائے سوشل میڈیا فیس بک، وغیرہ کے ذریعے درس دینے میں متعدد خرابیاں ہیں مثلا:
1-اجنبی عورت کے درس دینے میں اس کی آواز غیر محرموں تک بلا ضرورت پہنچے گی جو کہ جائز نہیں ہے۔
2-سوشل میڈیا والے دینی ویڈیوز سے قبل یا بیچ میں اپنی مرضی کے اشتہارات چلاتےہیں جو کسی بھی طرح کے ہوسکتے ہیں۔
لہذا دینی خدمات کے لیے سوشل میڈیا فیس بک وغیرہ پر درس دینے میں فائدے کے بجائے دینی نقصان کا غالب گمان ہے لہذا ان چیزوں سے بچنا چاہیے۔
درمختارمع ردالمحتار(2/95،96)میں ہے:
(وللحرة) ولو خنثى (جميع بدنها) حتى شعرها النازل في الأصح (خلا الوجه والكفين) فظهر الكف عورة على المذهب (والقدمين) على المعتمد، وصوتها على الراجح وذراعيها على المرجوح (وتمنع) المرأة الشابة (من كشف الوجه بين رجال) لا لأنه عورة بل (لخوف الفتنة)
(قوله وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال – عليه الصلاة والسلام – «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها – عليه الصلاة والسلام – من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة
منحۃ الخالق حاشیہ البحرالرائق لابن عابدینؒ(1/470)میں ہے:
ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها؛ لأن ذلك ليس بصحيح فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ.
وهذا يفيد أن العورة رفع الصوت الذي لا يخلو غالبا عن النغمة لا مطلق الكلام فلما كانت القراءة لا تخلو عن ذلك قال أحب إلي فليتأمل
مرقاۃالمفاتیح(1/275)میں ہے:
«(زناهما الاستماع) أي: إلى كلام الزانية أو الواسطة، فهو حظهما ولذتهما به. قال ابن حجر أي: إلى صوت المرأة الأجنبية مطلقا بناء على أنه عورة، أو بشرط الفتنة بناء على الأصح أنه ليس بعورة»
امدادالفتاوی(4/197)میں ہے:
سوال :پردہ عورت کا کس کس شے سے ہے، یعنی آواز سنانا، اور آواز دار زیور پہننا کیسا ہے؟ اور باہر مکان سے عورت کو کسی سے ملنے کوکس کس کے ساتھ جانا چاہئے؟ اور نابالغ لڑکوں اغیار سے پردہ کس عمر کے لڑکے سے چاہئے؟
الجواب: عورت حرّہ کو تمام اعضاء کا پردہ فرض ہے بجز چہرہ اور کفین اور قدمین کے اور آواز میں اختلاف ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ وہ عورۃ نہیں ہے، مگر جوان عورت کو بے ضرورت اعضائے غیر مستورہ کا اجنبی کو دکھانا اور بدون حاجت اُس سے کلام کرنا منع ہے، نہ اس وجہ سے کہ ستر ہے بلکہ بخوف فتنہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved