• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شوہر کے رخصتی نہ کرنے کی وجہ سے خلع کا حکم

استفتاء

مفتی صاحب! میں نے آپ کے ہاں ایک سوال (نمبر:6113) جمع کروایا تھا جس میں میں نے اپنی ہمشیرہ کے شوہر کے بارے میں تفصیلی حالات لکھے تھے کہ وہ نکاح کرنے کے بعد رخصتی کے لیے تیار نہیں ہے اور کئی سالوں سے ٹال مٹول کررہا ہے اور نہ ہی طلاق دینے پر آمادہ ہے۔ نکاح کو نو سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔ (اس کی تفصیل سابقہ سوال میں درج ہے، سابقہ سوال بمع جواب ساتھ لف ہے)۔ پھر آپ کی جانب سے اس کا جواب (فتویٰ نمبر: 13/327) دیا گیا تھا کہ شوہر کا ایسا کرنا ظلم ہے لہٰذا عدالت کے ذریعے یا علماء کی ایک جماعت کے ذریعے نکاح فسخ کروا لیا جائے۔ اس فتویٰ کے بعد بھی میں نے ہمشیرہ کے شوہر سے کئی مرتبہ بات کی لیکن وہ ہمیشہ ٹال مٹول کرتا رہا کبھی یہ کہتا کہ اس کو میرے پاس دوبئی بھیج دو، کبھی کہتا ہے کہ اپنے پاس رکھو۔ وہ اپنا بیان بھی بدلتا رہتا ہےجس کی دلیل ہمارے پاس کچھ صوتی ریکارڈنگز موجود ہیں۔ ایک دفعہ اس نے کہا کہ میں نے جو مہر میں پیسے ادا کیے ہیں وہ واپس دے دو تو میں چھوڑ دوں گا لیکن بعد میں اس سے بھی انکاری ہوگیا کہ میں نے ایسا نہیں کہا، حالانکہ اس بات پر دو معتبر پابندِ شرع گواہ بھی موجود ہیں۔ آخر تنگ آکر ہم نے عدالت سے رجوع کیا۔ سابقہ سوال میں میں نے یہ لکھا تھا کہ یہ نکاح رجسٹرڈ نہیں ہے اس لیے عدالت کی طرف مرافعہ ممکن نہیں، لیکن بعد میں مختلف وکیلوں سے مشورہ کیا تو معلوم ہوا کہ عدالت سے نکاح فسخ کروانے کے لیے نکاح رجسٹرڈ ہونا ضروری نہیں ۔ اس لیے ہم نے مذکورہ صورتِ حال کی بنیاد پر عدالت میں کیس کردیا، جس کی خبر اوصاف اخبار میں بھی دی گئی تھی۔ کیس کے دوران شوہر دوبئی میں تھا تو میں نے اسے اطلاع کرنے کے لیے فون کیا کہ ہم نے عدالت میں کیس کیا ہے لہٰذا تم یا تمہارا وکیل عدالت میں پیشی دو اور اپنا موقف پیش کرو، تو اس نے میری باتوں کا مذاق اڑایا اور کہا کہ ’’ہم عدالتوں کے فیصلوں کو نہیں مانتے، تمہارے ڈرانے سے ہم ڈرنے والے نہیں، وہ میری بیوی ہے، اس کو اپنے پاس سنبھال کے رکھو، میں تو نہیں آؤں گا اور نہ ہی چھوڑوں گا، اب تم تنگ آکر ایسی باتیں کرتے ہو، مزہ آیا ناں‘‘۔ بالآخر کیس چلتا رہا اور عدالت کی طرف سے فسخِ نکاح کی ڈگری جاری کردی گئی۔

مفتی صاحب! فسخِ نکاح کی ڈگری اور عدالت کی کارروائی کے کاغذات سوال ہذا کے ساتھ لف ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ خلع معتبر ہے اور کیا ہمشیرہ کا نکاح ختم ہوچکا ہے اور کیا ہمشیرہ کی شادی کہیں اور کی جاسکتی ہے؟ ازروئے شرع شریف وضاحت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عدالت کے ذریعے فسخِ نکاح کروانے سے نکاح ختم ہوچکا ہے کیونکہ سابقہ سوال اور مذکورہ سوال میں شوہر کے ذکر کردہ حالات سے واضح ہے کہ شوہر نہ تو بیوی کو بسانے کے لیے تیار تھا اور نہ طلاق دینے پر آمادہ تھا بلکہ معاملے کو لٹکا کر رکھنا چاہتا تھا جو کہ ظلم ہے۔ نیز عدالت میں کیس کرنے کے بعد شوہر کو اس کی اطلاع کرنے کے باوجود عدالت میں شوہر کے خود یا وکیل کے ذریعے پیشی دے کر اپنا مؤقف نہ دینے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ نہیں لہٰذا شوہر کے اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے عدالت کے ذریعے فسخِ نکاح درست ہوگیا ہے اور چونکہ ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی اس لیے بیوی پر عدت بھی نہیں ہے لہٰذا بیوی آزاد ہے اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔

اسلام کے عائلی قوانین (ص192)میں ہے:

’’ترک مجامعت اور بیوی کو معلقہ بناکر رکھنا بھی تفریق کے اسباب میں سے ایک سبب ہے کیونکہ حقوق زوجیت کی ادائیگی واجب ہے ۔حقوق زوجیت ادا نہ کرنا اور بیوی کو معلقہ بنا کررکھنا ظلم ہے اور رفع ظلم قاضی کا فرض ہے‘‘

کفایت المفتی (298/5) میں ہے:

’’سوال: ہندہ منکوحہ کئی سال سے اپنے گھر بیٹھی ہے۔اس کا شوہر جو شرعاً بعدعقد ہوا ہے کسی شہر میں گوشہ نشین بنا بیٹھا ہے۔ جب رخصتی کا خط اس کے پاس جاتا ہے تو تاریخ مقررہ میں نہیں آتا بلکہ خود تاریخ معین کرتا ہے اور اس میں بھی نہیں آتا۔ ہم لوگ برابر منتظر رہے کہ آئے اور شادی ہو مگر کئی تاریخیں ٹل گئی ہیں۔اور یہ قصہ اب کا ہے، ورنہ اس سے قبل جب نکاح ہوا تھا دونوں یعنی ہندہ اور اس کا شوہر نابالغ اورنابالغہ تھے۔ ماں باپ کی خوشی پر بچے نے ایجاب و قبول کیا تھا۔ اور باپ کی قدرت سے باہر ہے کہ ایسی صورت میں جب کہ میرے کچھ اختیارات ان پر ہیں رخصت کیونکر ہوگی اوربچی غریب کا کیا حال ہوگا۔ کچھ شرعی طریقہ ایسا فرمایئے ، یا ایسا حکم خاص صادر فرما دیں جس سے بچی ہندہ کی داد رسی ہوسکے۔ ۔۔۔۔الخ

جواب (۴۸۹): اگر عورت کے لئے گزارے اور حفظ عصمت کی کوئی صورت نہیں ہے اور خاوند ان امور کی پرواہ نہیں کرتا تو عورت کو حق ہے کہ کسی مسلمان حاکم کی عدالت سے اپنا نکاح فسخ کرائے۔ ۔۔۔۔۔۔(محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ، دہلی)‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved