• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مدرسہ کے نام سے آنے والے فنڈ کو سکول کے لیے استعمال کرنا

استفتاء

محترم جناب مفتی صاحب دامت برماتھم العالی!

ہمارا جامعہ عثمانیہ للبناب کے نام سے حنیف پارک نزد سبزی منڈی لاہور میں ایک مدرسہ ہے جس میںتقریبا چھ سو طالبات درجہ حفظ اور کتب کی ہیں اور تین سو طالبات اسکول کی تعلیم حاصل کرکررہی ہیں۔اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان طالبات کے لیے ناظرہ قر آن کریم اور بنیادی دینی مسائل پڑھنا بھی لازمی ہوتا ہے ۔درجہ حفظ اور کتب کی کچھ طالبات ساتھ ساتھ اسکول کی تعلیم بھی حاصل کرتی ہیں ،ہم نے اسکول کی تعلیم کے لیے مستقل ٹیچرز رکھی ہوئی ہیں ،ان کو تنخواہ مدرسہ کے فنڈ سے دی جاتی ہے۔مدرسہ کے فنڈ میں کچھ رقم زکوۃ کی ہوتی ہے اور کچھ رقم فیس کی ہوتی ہے جو تمام طالبات سے ہر ماہ لی جاتی ہے ۔درجہ حفظ اور کتب کی معلمات کو تنخواہیں بھی اسی فنڈ سے دی جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ اس فنڈ کی رقم مدرسہ کی دیگر ضروریات مثلا عمارت ،بجلی گیس کے بلز اور الیکٹرونکس وغیرہ کی اشیاء پر بھی خرچ کی جاتی ہے ۔مدرسہ کی صفائی وغیرہ کرنے والی خواتین کو تنخواہیں بھی اسی فنڈ سے دی جاتی ہیں۔ مدرسہ میں پڑھنے والی تمام طالبات اور معلمات غیر رہائشی ہیں صبح کو  آٹھ بجے  آتی ہیں اور شام کو عصر کے وقت چلی جاتی ہیں ۔طالبات یا معلمات کے لیے مدرسہ کی طرف سے کھانے وغیرہ کا انتظام نہیں کیا جاتا وہ سب اپنااپنا کھانا کھاتی ہیں ۔

ہم زکوۃ کی رقم کی تملیک کبھی یوں کرتے ہیں کہ کسی مستحق زکوۃ کو زکوۃ کی رقم دے دیتے ہیں وہ مستحق زکوۃ پھر وہ رقم مدرسہ کے فنڈ میں صدقہ کی نیت سے جمع کروا دیتا ہے ۔کبھی کسی مستحق کو کہہ دیتے ہیں کہ  آپ کسی سے اتنا قرض لے کر مدرسہ کے فنڈ صدقہ کی نیت سے جمع کروادیں وہ اتنا قرض لے کر مدرسہ کے فنڈ میں جمع کروادیتا ہے پھر ہم اس کو زکوۃ کی رقم دے دیتے ہیں جس سے وہ اپنا قرض ادا کردیتا ہے ۔اب  آپ حضرات سے التماس ہے کہ ہمیں اپنی رائے کے مطابق  آپ زکویۃ کی رقم کی تملیک کا صحیح طریقہ بتلادیں جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم ہمیشہ زکوۃ کی رقم کی تملیک کرتے رہیں ۔نیز ہمارے مذکورہ دونوں طریقے شریعت کی رو سے درست ہیں یا نہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔            مدرسے کے نام پر جو فنڈ جمع ہو اسے اسکول کی تعلیم پر لگانا جائز نہیں ،خواہ وہ فنڈ عام چندہ کا ہویا زکوۃ وصدقات واجبہ کا ہو ۔نیز تملیک کا کوئی طریقہ اختیار کر کے لگایا جائے یا برائہ راست لگایا جائے ۔البتہ اگر مدرسے میں اسکول کی تعلیم ضمنی اور اصل تعلیم دینی ہو جیسے وفاق المدارس کے نظام میں اسکول کی تعلیم ہے تو اس صورت میں مدرسے کا فنڈ اسکول کی تعلیم میں استعمال ہو سکتا ہے ۔

2۔            تملیک کے جو دو طریقے  آپ نے اختیار کیئے ہوئے ہیں یہ دونوں طریقے کچھ کچھ حیلے سے خالی نہیں ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ قرض والے طریقے میں حیلہ پن قدرے کم ہے اس لیے جب تک کوئی خاص مجبوری نہ ہو تملیک کے ان طریقوں سے احتیاط کی جائے ۔ہمارے خیال میں بے غبار طریقہ یہ ہے کہ مدرسہ میں دی جانے والی سہولیات کے پیش نظر طالبات پر اتنی فیس مقرر کی دی جائے جس سے  آپ کے اخراجات نکل  آئیں پھر جو طالبہ فیس نہ دے سکتی ہو اور وہ مستحق زکوۃ ہو تو زکوۃ فنڈ سے ورنہ عام فنڈ سے اس کے لیے فیس کے بقدر وظیفہ مقرر کر دیا جائے جو اسے دیکر فیس کی مد میں واپس لے لیا جائے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved