استفتاء
1) حضرت محمد ﷺ نے رفع یدین کیا تھا پھر بعد میں چھوڑا کیوں اور پہلے کیوں کیا؟
2) اب رفع یدین کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں حوالہ نمبر اور حدیث کے ساتھ جواب عطا فرمائیں۔
3) کیا حج اور عمرہ صرف وفات پا ئے ہوئے لوگوں کی طرف سے جائز ہے یا زندہ کے لئے بھی کر سکتے ہیں؟
4) اور وفات پائے ہوئے کے لئے جائز کیوں ہے اور زندہ کے لئے کیوں نہیں کر سکتے؟ اس کا حدیث و قرآن کی روشنی میں حوالہ کے ساتھ با روایت کے ساتھ جواب فرمائیں۔
5) کیا حضرت محمد ﷺ نے حضرت علی ؓ کو فرمایا تھا کہ میرے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہر سال میرے لئے قربانی ضرور کرنا ۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے؟
6) اور اگر کسی کے لئے حج کیا جائے تو اس میں قربانی لازم ہے اور کیا زندہ انسان کے لئے حج کیا جا سکتا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں روایت کے ساتھ جواب عطا فرمائیں۔
(برائے مہربانی حوالہ نمبر مع روایت ضرور تحریر کریں! شکریہ)
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1) ابتداء میں رفع یدین کی ایک وجہ یہ تھی کہ بار بار رفع یدین کرنے سے آدمی کی توجہ نماز کی طرف رہے کیونکہ جس کام کی پہلے عادت نہ ہو اس میں شروع شروع میں بے توجہی ہوتی رہتی ہےپھر جب نماز کی عادت ہو گئی اور توجہ نماز کی طرف رکھنا آسان ہو گیا تو بار بار رفع یدین کرنے کو ترک کر دیا گیا۔ چنانچہ حجۃ اللہ البالغہ، القسم الثانی، رفع الیدین عند الرکوع (طبع :قدیمی کتب خانہ کراچی، جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 19) میں ہے:
"اقول : السر في ذلك ان رفع اليدين فعل تعظيمي ينبه النفس على ترك الأشغال المنافية للصلاة والدخول في حيز المناجاة، فشرع ابتداء كل فعل من التعظيمات الثلاث به، لتتنبه النفس لثمرة ذلك الفعل مستأنفا وهو من الهيئات فعله النبي ﷺ مرة وتركه مرة۔۔۔الخ”
2) اب بھی رفع یدین کرنا جائز ہے تا ہم حنفیہ کی تحقیق یہ ہے کہ اب رفع یدین کرنا خلاف اولی ہےکیونکہ متعدد احادیث کی وجہ سے حنفیہ کی تحقیق یہ ہے کہ آخر کار رفع یدین کرنا چھوڑ دیا گیا تھا چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں:
صحیح مسلم ، کتاب الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث نمبر 968 میں ہے:
"عن جابر بن سمرة رضى الله عنه ، قال: خرج علينا رسول الله ﷺ، فقال: ما لي اراكم رافعي ايديكم، كانها اذناب خيل شمس، اسكنوا في الصلاة ۔۔۔ الخ”
( سیدنا جابر ؓکا بیان ہے(ہم نماز پڑھ رہے تھے اور رفع یدین کر رہے تھے) کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: میں تم کو اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ تم لوگ نماز میں سکون اختیار کرو)
سنن ابو داؤد، أبواب تفريع استفتاح الصلاة، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث نمبر 750 میں ہے:
"۔۔۔عن البراء رضی الله عنه ان رسول الله ﷺ كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه إلى قريب من اذنيه ثم لا يعود”
(حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع فرماتے تو اپنے کانوں تک ہاتھ اٹھاتے پھر دوبارہ نہ اٹھاتے)
سنن النسائی، کتاب التطبیق، باب الرخصۃ فی ترک ذلک، حدیث نمبر 1059 میں ہے:
"عن عبد الله رضي الله عنه انه قال:” الا اصلي بكم صلاة رسول الله ﷺ فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة واحدة "
(حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں؟ چنانچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، تو انہوں نے صرف ایک بار رفع یدین کیا)
مسند الحميدی، احادیث عبد اللہ بن عمر بن الخطابؓ، حدیث نمبر 614 میں ہے:
"614-۔۔۔أخبرني سالم بن عبد الله عن أبيه قال : رأيت رسول الله ﷺ إذا أفتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه وإذا أراد أن يركع وبعد ما يرفع رأسه من الركوع فلا يرفع ولا بين السجدتين”
(حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے اور نہ ہی سجدوں کے درمیان ہاتھ اٹھاتے تھے)
3۔4) حج و عمرہ زندہ لوگوں کے لئے بھی کر سکتے ہیں۔
صحیح ابو داؤد، کتاب المناسک، باب الرجل یحج عن غیرہ، حدیث نمبر 1810 میں ہے:
” عن ابي رزين، قال حفص في حديثه: رجل من بني عامر، انه قال: يا رسول الله، إن ابي شيخ كبير لا يستطيع الحج ولا العمرة ولا الظعن، قال:” احجج عن ابيك واعتمر”
(حضرت ابورزین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی عامر کے ایک فرد نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو نہ حج کی طاقت رکھتے ہیں نہ عمرہ کرنے کی اور نہ سواری پر سوار ہونے کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے والد کی جانب سے حج اور عمرہ کرو)
صحیح بخاری، کتاب جزاء الصید، باب الحج والنذور عن المیت والرجل یحج عن المرأۃ، حدیث نمبر 1852میں ہے:
"عن ابن عباس رضي الله عنه، ان امراة من جهينة جاءت إلى النبي ﷺ، فقالت: إن امي نذرت ان تحج فلم تحج حتى ماتت، افاحج عنها؟ قال: نعم، حجي عنها، ارايت لو كان على امك دين اكنت قاضية، اقضوا الله، فالله احق بالوفاء”
(حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکیں اور ان کا انتقال ہو گیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے تو حج کر۔ کیا تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں؟ اللہ کا حق ادا کرو اور اللہ کا حق تو اور بھی پورا کیا جانے کامستحق ہے )
صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب قضاء الصیام عن المیت، حدیث نمبر 2697 میں ہے:
"عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه رضي الله عنه، قال: بينا انا جالس عند رسول الله ﷺ، إذ اتته امراة، فقالت۔۔۔۔ قالت: إنها لم تحج قط، افاحج عنها؟، قال: حجي عنها "
( سیدنا عبد اللہ بن بریدہ ؓ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺکے پاس بیٹھے تھے کہ ایک عورت آئی ۔۔۔۔اس نے عرض کیا کہ میری ماں نے کبھی حج نہیں کیاتو کیا میں اپنی والدہ کی طرف سے حج کروں؟ آپ ﷺنے فرمایا: اس کی طرف سے حج کرلو)
رد المحتار على الدر المختار، كتاب الحج، باب الحج عن الغیر (طبع: مكتبہ رشيدیہ، جلد نمبر4 صفحہ نمبر 12) میں ہے:
"الأصل أن كل من أتى بعبادة ما ، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه لظاهر الأدلة وأما قوله تعالى – { وأن ليس للإنسان إلا ما سعى } – أي إلا إذا وهبه له كما حققه الكمال ، أو اللام بمعنى على
قال ابن عابدين: ( قوله بعبادة ما ) أي سواء كانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة ، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء والأولياء والصالحين ، وتكفين الموتى ، وجميع أنواع البر كما في الهندية ط وقدمنا في الزكاة عن التتارخانية عن المحيط الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء ۔۔۔ ( قوله لغيره ) أي من الأحياء والأموات بحر عن البدائع۔۔۔ ( قوله كما حققه الكمال ) حيث قال ما حاصله : أن الآية وإن كانت ظاهرة فيما قاله المعتزلة ، لكن يحتمل أنها منسوخة أو مقيدة ؛ وقد ثبت ما يوجب المصير إلى ذلك وهو ما صح عنه ﷺ { أنه ضحى بكبشين أملحين أحدهما عنه والآخر عن أمته} ” فقد روي هذا عن عدة من الصحابة وانتشر مخرجوه ؛ فلا يبعد أن يكون مشهورا يجوز تقييد الكتاب به بما لم يجعله صاحبه لغيره . وروى الدارقطني ” { أن رجلا سأله عليه الصلاة والسلام فقال : كان لي أبوان أبرهما حال حياتهما فكيف لي ببرهما بعد موتهما ؛ فقال ﷺ : إن من البر بعد الموت أن تصلي لهما مع صلاتك وأن تصوم لهما مع صومك } ” وروي أيضا عن علي عنه ﷺ قال ” { من مر على المقابر وقرأ { قل هو الله أحد } إحدى عشرة مرة ثم وهب أجرها للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات } ” وعن { أنس قال يا رسول الله إنا نتصدق عن موتانا ونحج عنهم وندعو لهم ، فهل يصل ذلك لهم ؟ قال نعم ، إنه ليصل إليهم ، وإنهم ليفرحون به كما يفرح أحدكم بالطبق إذا أهدي إليه } ” رواه أبو حفص العكبري . وعنه أنه ﷺ قال ” { اقرءوا على موتاكم يس } ” رواه أبو داود ، فهذا كله ونحوه مما تركناه خوف الإطالة يبلغ القدر المشترك منه وهو النفع بعمل الغير مبلغ التواتر ، وكذا ما في الكتاب العزيز من الأمر بالدعاء للوالدين ، ومن الإخبار باستغفار الملائكة للمؤمنين قطعي في حصول النفع ، فيخالف ظاهر الآية التي استدلوا بها إذ ظاهرها أن لا ينفع استغفار أحد لأحد بوجه من الوجوه لأنه ليس من سعيه ، فقطعنا بانتفاء إرادة ظاهرها فقيدناها بما لم يهبه العامل ، وهذا أولى من النسخ لأنه أسهل إذ لم يبطل بعد الإرادة ، ولأنها من قبيل الإخبار ولا نسخ في الخبر”
5) یہ بات صحیح ہے کہ آپ ﷺنے حضرت علی ؓ کو قربانی کرنے کی وصیت کی تھی ۔
سنن ابو داؤد، کتاب الضحایا، باب الاضحیۃ عن المیت، حدیث نمبر 2790 میں ہے:
"عن حنش قال: رايت عليا يضحي بكبشين، فقلت له: ما هذا؟ فقال إن رسول الله ﷺ اوصاني ان اضحي عنه فانا اضحي عنه”
(حضرت حنش ؒسے مروی ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، تو میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں)
سنن ترمذی، کتاب الاضاحی عن رسول اللہ ﷺ، باب ما جاء فی الاضحیۃ عن المیت، حدیث نمبر 1495 میں ہے:
"عن علي رضی الله عنه انه كان يضحي بكبشين احدهما عن النبي ﷺ والآخر عن نفسه فقيل له: فقال: امرني به يعني: النبي ﷺ فلا ادعه ابدا”
(حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی اکرم ﷺکی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے، تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے اس کا حکم نبی اکرم ﷺ نے دیا ہے، لہٰذا میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا)
6) اگر حج افراد کیا تو حج میں قربانی لازم نہیں ہوتی لیکن اگر تمتع یا قران کیا تو دم شکرکی قربانی واجب ہوتی ہے۔
رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج ( طبع: مكتبہ رشيدیہ، جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 611) میں ہے:
"(ثم )بعد الرمي (ذبح ان شاء) لانه مفرد
قال ابن عابدين: قوله(لانه مفرد) تعليل لما استفيد من التخيير بقوله إن شاء والذبح له أفضل ، ويجب على القارن والمتمتع”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved