- فتوی نمبر: 13-111
- تاریخ: 25 فروری 2019
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں ! کہ ایک آدمی کا جانور ہے جس کی قیمت تیس ہزار ہے وہ یہ جانور کسی دوسرے آدمی کو دیتا ہے اس شرط پر کہ وہ دوسرا آدمی اس جانور کو پالے گا لیکن وہ یہ شرط لگاتا ہے کہ جو بھی اس جانور سے نفع حاصل ہو گا وہ ہم دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہو گا پھر مالک یہ کہتا ہے کہ جو اس جانور کی اصل قیمت ہے یعنی تیس ہزار یہ اس نفع میں داخل نہیں ہو گی گویا کہ اگر اس سے بیس ہزار روپے نفع ہوا ہے تو یہ ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہو گا اور تیس ہزار جو اس جانور کی اصل قیمت ہے وہ اس میں داخل نہیں ہے آیا کہ ان کا ایسی شرط لگانا کیسا ہے؟
مزید وضاحت :
لیکن اگر جانور چھوٹا ہو تو پھر وہ دونوں اس میں یہ شرط لگاتے ہیں کہ اس میں سے جو بھی نفع حاصل ہو گا وہ مطلقا ہم دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہو گا اصل قیمت کا اس میں کوئی اعتبار نہیں ہو گا تو ایسی شرط کا کیا حکم ہے؟اوران کا اس طرح کرناکیسا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ دونوں صورتیں حنابلہ کے نزدیک جائز ہیں آ ج کل ابتلاء کی وجہ سے اس قول کو لینے کی گنجائش ہے تاہم احتیاط بہتر ہے۔
الشرح الکبير لابن قدامة(19/5شامله)
ولو استأجر راعيا لغنم بثلث درها وصوفها وشعرها ونسلها أو نصفه أو جميعه لم يجز نص عليه أحمد في رواية سعيد بن محمد النسائي(والصحيح جعفربن محمد کما في المغني ومطالب اولي النهي وفي الانصاف جعفربن محمد النسائي کان الامام احمد ؒ يجله ويکرمه ويقدمه۔۔۔۔) لان الاجر غير معلوم ولا يصلح عوضا في البيع، قال اسمعيل بن سعيد سألت أحمد عن الرجل يدفع البقرة إلي الرجل علي أن يعلفها ويحفظها وولدها بينهما فقال اکره ذلک وبه قال ابو ايوب وأبو خيثمة ولا أعلم فيه مخالفا لان العوض معدوم مجهول لا يدري ايو جدام لا، والاصل عدمه ولا يصلح أن يکون ثمنا، فان قيل فقد جوزتم دفع الدابة إلي من يعمل عليها بنصف مغلها قلنا انما جاز ثم تشبيها بالمضاربة(لعل الصواب المزارعة کما في مطالب اولي النهي 594-3والمغني 8/5) ولانها عين تنمي بالعمل فجاز اشتراط جزء من النماء کالمضاربةوالمساقاة(لعل الصواب المزارعةبدل المضاربة کما في مطالب اولي النهي 594-3والمغني 8/5) وفي مسئلتنا لا يمکن ذلک لان النماء الحاصل في الغنم لا يقف حصوله علي عمله فيها فلم يمکن الحاقه بذلک،
وذکر صاحب المحرر(۱) رواية أخري انه يجوز بناء علي ما إذا دفع دابته أو عبده يجزء من کسبه والاول ظاهر المذهب لما ذکرنا من الفرق، وعلي قياس ذلک إذا دفع نحله إلي من يقوم عليه بجزء من عسله وشمعه يخرج علي الروايتين فان اکتراه علي رعيها مدة معلومة بجزء معلوم منها صح لان العمل والمدة والاجر معلوم فصح کما لو جعل الاجر دراهم ويکون النماء الحاصل بينهما بحکم الملک لانه ملک الجزء المجعول له منها في الحال فکان له نماؤه کما لو اشتراه ۔
هو مجد الدين ابو البرکات عبد السلام بن عبد الله بن ابي القاسم بن محمد بن تيمية (غير ابن تيميةالمعروف)قال الذهبي الحافظ کان الشيخ مجد الدين معدوم النظير في زمانه رأسا في الفقه واصوله بارعا في الحديث ومعانيه له اليدالطولي في معرفة القرآن والتفسير صنف التصانيف واشتهر اسمه وبعد صيته وکان فرد زمانه في معرفة المذهب مفرط الذکاء متين الديانة کبير الشان( ذيل طبقات الحنابلة:284/1)
© Copyright 2024, All Rights Reserved