- فتوی نمبر: 13-86
- تاریخ: 05 فروری 2019
- عنوانات: عبادات > روزہ و رمضان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پندرہ شعبان کے بعد روزے رکھنے کا کیا حکم ہے ؟ہوسکے تو حوالہ کے ساتھ جواب مرحمت فرمادیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
احادیث میں پندرہ شعبان کے بعدنفلی روزے رکھنے کی ممانعت آئی ہے ۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب شعبان کا آدھا ماہ رہ جائے تو تم روزے نہ رکھو اس لیے پندرہ شعبان کے بعد نفلی روزے رکھنا مکروہ تنزیہی ہے ۔البتہ یہ کراہت ایک تو اس شخص کے حق میں ہے جو صرف شعبان کے آخری نصف مہینہ میں روزے رکھے لیکن اگر کوئی شخص پورے مہینے کے روزے رکھے تو اس کے حق میں کراہت نہیں اسی طرح یہ کراہت اس شخص کے حق میں ہے جسے ضعف کا اندیشہ ہو۔لہذا جس کو ضعف کا اندیشہ نہ ہو اس کے حق میں بھی یہ کراہت نہیں ۔نیز یہ کراہت صرف نفلی روزوں سے متعلق ہے قضا یا کفارے کے روزوں سے متعلق نہیں ۔چنانچہ مرقات شرح مشکوۃ المصابیح (469/4)میں ہے :
وعن ابي هريرةؓ قال قال رسول الله ﷺ اذا انتصف شعبان اي اذا مضي النصف الاول منه فلاتصوموا اي بلاانضمام شيء من النصف الاول،او بلا سبب من الاسباب المذکورة، وفي رواية فلا صيام حتي يکون رمضان والنهي للتنزية رحمةالله علي الامة أن يضعفوا عن حق القيا م بصيام رمضان علي وجه النشاط واما من صام شعبان کله فيتعود بالصوم ويزول عنه الکلفة ولذا قيده بالانتصاف او نهي عنه لانه نوع من التقدم المقدم۔ والله اعلم
قال القاضي المقصود استجمام من لايقوي علي تتابع الصيام فاستحب الافطار کما استحب افطاره عرفة ليتقوي علي الدعاء فاما من قدر فلا نهي له
© Copyright 2024, All Rights Reserved