• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مریم نامی بیوی سے ہونے والے بیٹے کا نام عیسی رکھنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میری بیوی کا نام مریم ہے کیا میں  بیٹے کا نام محمد عیسی رکھ لوں  ؟اگر نہیں  تو وہ حدیث بھیج دیں  جس میں  منع ہے ۔کسی نے کہا ہے کہ حدیث میں  منع آیا ہے کہ مریم کے بیٹے کانام عیسی نہیں  رکھ سکتے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کسی مریم نامی خاتون کے بیٹے کا نام عیسی رکھنے کی ممانعت کسی حدیث میں  نہیں  ہے البتہ ایک حدیث میں  ابو عیسی کی کنیت رکھنے کی ممانعت ہے ۔مگر یہ ممانعت بھی کسی خاص پس منظر میں  تھی یا شروع کے زمانے میں  تھی مگر بعد میں  منسوخ ہو گئی جس کی دلیل یہ ہے ایک صحابی حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی کنیت خودحضور نے ابو عیسی رکھی تھی اور بعد میں  امت میں  بھی ابوعیسی کنیت کا چلن رہا ہے چنانچہ حدیث کے مشہور امام ،امام ترمذی ؒ کی کنیت ابو عیسی تھی نیز ہمارے ہاں  عجمی علاقوں  میں  عام طور سے بیٹے کے نام کی کنیت نہیں  رکھی جاتی اس لیے اپنے بیٹے کا نام عیسی رکھنا بلاشبہ جائز ہے، ممانعت کی کوئی وجہ نہیں ۔

عن زيد بن اسلم عن ابيه ان عمربن الخطاب ضرب ابنا له يکني بابي عيسي (وقال :اتکتي بابي عيسي او کان له اب)وان المغيرة بن شعبة تکني بابي عيسي فقال له عمرؓ ان يکفيک ان تکني بابي عبدالله فقال رسول اللهﷺ کناني فقال ان رسول الله قد غفرله ماتقدم من ذنبه وتاخروانا في جلجتنا (اي في عدد من امثالنا من المسلمين لاندري مايصنع من عون المعبود)فلم يزل يکني بابي عبدالله حتي هلک(هلک)

في المصنف لابن ابي شعبة(27206)

عن علي ان رجلا اکتني بابي عيسي فقال رسول الله ان عيسي لااب له۔

في العرف الشذي(6/1)

(قوله قال ابو عيسي)قد ورد النهي عن التکني بهذه الکنية ولعل المصنف حمله علي خلاف الاولي لکنه بعيد عن شان المصنف ولم يتعرض احد لهذا وعندي العذرمن جانب المصنف ان المغيرة بن شعبة تکني بابي عيسي باجازة النبي۔قال ابن القيم :کره قوم من السلف الکنية بابي عيسي واجازها آخرون قلت :ولاادري ماوجه الکراهة (التجير لايضاح معني التسير:387/1)

تحفة الالمعي شرح اردو جامع ترمذي مولانا سعيد احمد پالن پوري ميں  مخصوص پس منظر يا منسوخ کي بات کي گئي هے ۔فقط والله تعالي اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved