• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زکوۃ کے متعلق سوالات

استفتاء

ایک شخص کے بارے میں مجھے اندازہ ہے کہ اسے زکوۃ لگتی ہے، کیونکہ وہ اپنے گھر کا خرچ لوگوں سے ادھار مانگ کر گزارہ کررہا ہے۔ اس کے پاس صرف ایک گاڑی ہے جو اس کے اپنے استعمال میں ہے وہ ادھار مانگ رہا ہے کہ چھ ماہ میں واپس کردوں گا لیکن ظاہری طور پر ابھی تک اس کی آمدنی کاکوئی ذریعہ نہیں ہے۔ مفتی حضرات اس بارے میں کیا کہتے ہیں :

۱۔ اگر میں اس کو بتائے بغیر اس کی ضرورت کے بقدر پیسے زکوۃ میں سے دے دوں تو کیا یہ درست ہو  گا ؟

2۔ اور اگر عرصے کے بعد وہ واپس کر دے تو اس صورت میں کیا کرنا ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

.1مذکورہ صورت میں اگر آپ اس کو بتائے بغیر زکوۃ کی رقم دے دیں تو یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ دل میں زکوۃ کی نیت ہو۔

۲۔ اگر وہ واپس کرے تو آپ واپس نہ لیں اور کہہ د یں کہ میں نے معاف کیا۔

فی الهندیة:۱۷۱/۲

ومن اعطی مسکینا دراهم وسماها هبة او قرضا ونوی الزکاة فانها تجزیه وهو الاصح هکذا فی البحر الرئق

وفی البحر:۳۷۰/۲

ولم یشترط المصنف رحمه الله علم الاخذ بما یاخذه انه زکاة للاشارة الی انه لیس بشرط وفیه اختلاف والاصح کما فی المبتغی والقنیة ان من اعطی مسکینا دراهم وسماها هبة او قرضا ونوی الزکاة فانها تجزئه۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved