- فتوی نمبر: 22-378
- تاریخ: 09 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
سوال:زید اور بکر دونوں نے 50 ،50 ہزار ملا کر ایک بھینس خریدی اور پھر بکر نے اپنا حصہ زید کو بیچ دیا جس کی قیمت یہ طے ہوئی کہ زید 5 ماہ میں قسطوں کی شکل میں ہر ماہ 10 ہزار روپے دے گا اور 5 ماہ تک بکر کو ایک کلو دودھ دے گا ۔آپس میں پہلے سے ہی یہ طے تھا کہ بکر بعد میں اپنا حصہ زید کو بیچ دے گا اور دودھ سے مراد مطلق دودھ ہے یعنی وہ بھینس دودھ نہ بھی دے تو پھر بھی زید ، بکر کو ایک کلو دودھ دینے کا پابند ہوگا ۔کیا اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے ؟ اگر نہیں تو اس کی جائز صورت بتادیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ پہلے سے یہ طے تھا کہ مشترکہ طور پر بھینس خریدنے کے بعد بکر اپنا حصہ زید کو بیچ دے گا اور زید وہ خریدنے کا پابند ہوگا، یہ صورت ناجائز ہے۔ جائز صورت یہ ہے کہ یا تو پہلے سے یہ طے نہ کیا جائے کہ بکر بعد میں اپنا حصہ زید کو بیچ دے گا اور اگر طے بھی کیا جائے تو اسے لازم نہ سمجھا جائے یعنی طے کرنے کے بعد بھی بکر کو فروخت نہ کرنے کی اور زید کو نہ خریدنے کی آزادی ہو۔
امداد الفتاوی(3/39)میں ہے:
سوال: قدیم ۳/ ۳۹- عمرو نے زید سے کہا کہ تم مجھ کو یک صد روپیہ کا مال جفت پاپوش منگادو، میں تم سے صد کا منافع دے کر ادھار ایک ماہ کے واسطے خرید کر لوں گا، یا جس قدر مدت کے واسطے تم دوگے اسی حساب سے منافع دونگا، یعنی پانچ روپے یک صد روپیہ کا منافع ایک ماہ کے واسطے ہے، جب مال آجاوے گا اس وقت مدّت ادھار اور منافع کی معین ہوجاوے گی، اس کے جواب میں زید نے کہا کہ میں منگادوں گا ، مگر اطمینان کے واسطے بجائے یک صد کے دو صد کا رقعہ لکھاؤں گا تاکہ تم خلاف عہدی نہ کرو، عمرو نے منظور کیا؟
الجواب: اس میں دو مقام قابل جواب ہیں ، ایک یہ کہ زید وعمرو میں جو گفتگو ہوئی یہ وعدہ محضہ ہے، کسی کے ذمہّ بحکم عقد لازم نہیں ۔ اگر زید کے منگانے کے بعد بھی عمرو انکار کر دے تو زید کو مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں ، پس اگر عرف وعادت میں عمرو مجبور سمجھا جاتا ہو تو یہ معاملہ حرام ہے ورنہ حلال۔اسی طرح عمرو کو اور مثل عمرو کے زید کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وعدہ بیع پر قائم رہنے کی صورت میں منافع کی مقدار میں تغیر وتبدیل کردیں یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایک ماہ کے ادھار کی صورت میں پانچ روپے سیکڑہ نفع کا ٹھہرا تھا ،باقی زیادہ لکھنا یہ بیع ہزل فی مقدار الثمن ہے ،اگر عمرو کی بد عہدی کی صورت میں بھی زیادہ مقدار واقعی ثمن سے زیادہ وصول نہ کرے تو جائز ہے ورنہ حرام ہے ،نیز زید پر واجب ہوگا کہ ورثہ کو اس کی اطلاع کردے تاکہ زید کے بعد وہ عمرو کو پریشان نہ کریں ۔(20 محرم 1330ھ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved