- فتوی نمبر: 22-133
- تاریخ: 10 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > قرض و ادھار
استفتاء
سوالوں سے متعلق کچھ ابتدائی تفصیل:
جناب عالی میرا نام فاروق احمد ہے اورمیں پراپرٹی کاکام الجلیل گارڈن شرقپور روڈ پر کرتا ہوں ہماری سوسائٹی نے 5سال پہلے کچھ فائلیں 5سال کی قسطوں پر سیل کی تھیں ۔اب 5سال مکمل ہونے پر انہوں نے فائل ہولڈرز سے کہا ہے کہ ڈویلپمنٹ چارجز جمع کروائیں تاکہ آپ کا نام پلاٹوں کی قرعہ اندازی میں شامل کیا جاسکے ۔اب بعض لوگ ایسے ہیں کہ جن کے پاس ڈویلپمنٹ چارجز جمع کروانے کےلیے رقم نہیں ہے تو سوسائٹی ان سے وہ پلاٹ 10فیصد کٹوتی کے ساتھ خرید کر 6ماہ کاچیک دے رہی ہے۔ لیکن سوسائٹی نے ڈیلر حضرات کےلیے یہ سہولت رکھی ہے کہ ڈیلرحضرات کوئی پلاٹ سوسائٹی کو بیچنا چاہیں تو سوسائٹی آفس میں اپنا اکاؤنٹ(کھاتا) کھلواکرفائل کی پوری رقم نقد اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفرکرواسکتے ہیں ۔ لہذا جو لوگ پلاٹ بیچنا چاہ رہے ہیں وہ سوسائٹی کو فائل واپس ادھار بیچنے کی بجائے ڈیلر کو کچھ سستی بیچ کر نقد رقم حاصل کرلیتے ہیں اور پھر ڈیلر وہ پلاٹ سوسائٹی کو بیچ دیتا ہے اور اس ڈیلرکے اکاؤنٹ میں وہ رقم جمع ہوجاتی ہے ۔ لیکن سوسائٹی کا اصول ہے کہ ڈیلر وہ رقم نکلوا نہیں سکتا البتہ اسے سوسائٹی کے معاملات میں ایڈجسٹ کرسکتا ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ وہ ڈویلپمنٹ چارجز جمع بھی کروا رہے ہیں ۔اس تفصیل کے مد نظر میرے سوالات درج ذیل ہیں
سوالات:
1) جو لوگ اپنی فائل کے ڈویلپمنٹ چارجز جمع کروا رہے ہیں ڈیلر حضرات ان لوگوں کو آفرکررہے ہیں کہ آپ کمپنی کی بجائے ہمیں چارجز کی مذکورہ رقم جمع کروائیں تو ہم آپ کو آٹھ، دس فیصد رعایت کردیں گے مثلا انہوں نے چارجز کی مد میں 5 لاکھ روپے دینے ہیں تو ہم ان سے 450000 روپے لے لیتے ہیں اور کمپنی میں جو ہمارے اکاؤنٹ میں 5 لاکھ ہیں وہ گاہک کی طرف سے چارجز میں جمع کروا دیتے ہیں یوں ہمیں رقم مل جاتی ہے اور انہیں ڈسکاؤنٹ ۔فتوی یہ درکار ہے کہ کیا یہ طریقہ درست ہے ؟
2۔ دوسرا مسئلہ یہ پوچھنا تھا کہ ایک ڈیلر دوسرے ڈیلر کو بیلنس ٹرانسفر کرسکتا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ دونوں ڈیلرزکے اکاؤنٹس ایک بڑی اسٹیٹ ایجنسی کے پاس ہیں مگر سوسائٹی سے وہ رقم کیش نہیں کرواسکتے جیسا کہ پہلے سوال میں ذکر کیا ہے اب کسی ڈیلر کو کمپنی کے پاس رقم جمع کروانی ہوتی ہے تو دوسرا ڈیلر اسے کہتا ہے کہ آپ نے پچاس لاکھ سوسائٹی میں کسی مد میں جمع کروانے ہیں تو اس کی بجائے آپ مجھے نقد پینتالیس لاکھ دےدو تاکہ مجھے کیش حاصل ہو جائے یا پینتالیس لاکھ کے جتنے پلاٹ بنتے ہیں وہ دے دو میں کمپنی کے پاس اپنے اکاؤنٹ میں سے آپ کی طرف سے 50 لاکھ جمع کروا دوں گا ۔
کیا یہ دونوں صورتیں درست ہیں ؟
فاروق احمد
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1) مذکورہ صورت جائز نہیں ۔
توجیہ : مذکور ہ صورت کا حاصل یہ ہے کہ ڈیلر کا سوسائٹی میں اکاؤنٹ ہے جس میں مثلا 5لاکھ روپے ہیں یعنی کمپنی ڈیلر کی 5 لاکھ کی مدیون (مقروض)ہے اب ڈیلر 5 لاکھ کا وہ دین (قرض)جو اس کا کمپنی کے ذمہ تھا وہ چارجز جمع کروانے والے کو ساڑھے 4 لاکھ میں فروخت کردیتا ہے تاکہ وہ پانچ لاکھ چارجز جمع کروانے والے کے چارجز میں شمار ہوجائیں لہذا مذکورہ صورت میں لازم آئے گا کہ ڈیلر اپنا دین (قرض)اس شخص کے علاوہ کسی اور کو بیچ رہا ہے جس کے ذمہ وہ دین (قرض)لازم ہے جبکہ بیع الدین من غیر من علیہ الدین ناجائز ہے، نیز مذکورہ صورت میں روپے کی کمی بیشی کے ساتھ فروخت بھی ہے جو کہ سود اور ناجائز ہے۔
2) مذکورہ صورت بھی جائز نہیں
توجیہ : مذکورہ صورت میں جہاں وہ ڈیلر 50 لاکھ کی بجائے 45 لاکھ لے رہا ہے وہاں بیع الدین من غیر من علیہ الدین اور سود دونوں لازم آئیں گے جیسا کہ شق نمبر 1 میں ذکر کیا گیا ہے اور جہاں 50 لاکھ کے بدلے پلاٹ لے رہا ہے وہاں سود تو نہیں لیکن بیع الدین من غیر من علیہ الدین پھر بھی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved