- فتوی نمبر: 22-388
- تاریخ: 10 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
اگر کسی شخص کاوالد بیمار ہو اور یہ شخص اس نیت سےبکرا ذبح کرے کہ اللہ تعالی اس کی برکت سے میرے والد کو صحت دیں ،تو کیااس نیت سے بکرا ذبح کرنا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
محض ذبح کرنے کا شفا ملنے میں کچھ دخل نہیں لہذا اس سوچ سے بکرا یا کوئی جانور ذبح کرنا کہ محض ذبح کا شفا ملنے میں کوئی دخل ہے خلاف شریعت ہے البتہ اس نیت سے ذبح کرنا کہ ذبح کرکے گوشت صدقہ کروں گا اور صرف اس صدقہ کرنے کو (نہ کہ ذبح کرنے کو اور صدقہ کرنے کےمجموعے کو ) شفا کا سبب سمجھے تو یہ درست ہے۔
شعب الإيمان (3/ 282) میں ہے:
عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : تصدقوا و داووا مرضاكم بالصدقة فإن الصدقة تدفع عن الأعراض و الأمراض و هي زيادة في أعمالكم و حسناتكم.
احسن الفتاوی(1/367) میں ہے:
سوال :کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید سخت بیمار ہے اگر اس کی طرف سے بکرا ذبح کرکے گوشت فقیروں کو تقسیم کیا جائے تو جائز ہے یا نہیں ؟کہ اللہ تعالی صدقہ کی وجہ سے اس بیمار پر رحم کرے یا آسانی سے جلد روح نکل جائے اس کاشرعا کیا حکم ہے؟۔۔
جواب: آفات اور بیماری سے حفاظت کےلیے صدقہ وخیرات کی ترغیب آئی ہے مگر عوام کا اعتقاد اس بارے میں یہ ہوگیا ہے کہ کسی جانور کا ذبح کرنا ہی ضروری ہے جان کو جان کا بدلہ کہتے ہیں ،شریعت میں قربانی اور عقیقہ کے سوا اور کہیں بھی جانور کا ذبح کرنا ثابت نہیں
امداد الفتاوی (جدید) 11/ 445) میں ہے:
سوال:اس علاقے کے عوام و خواص سب لوگوں کے درمیان یہ رواج ہے کہ جب کسی کو کوئی مرض لاحق ہوتا ہے یا کوئی مصیبت آتی ہے مریض کے سر پر یا کوئی ناگہانی واقعہ پیش آتا ہے تو بلا ٹالنے کے لیے بنیت صدقہ جانور ذبح کرتے ہیں یا کہتے ہیں کہ اے رب العالمین اس مریض کو شفا عطا فرما، ہم تیرے واسطے جانور ذبح کریں گے، چونکہ اس وقت مقصو د اللہ تعالیٰ کے خاص رحم و کرم کا نزول ہوتا ہے نہ کہ جانور پر غضب ڈھانا تو کیا اس قسم کا رواج اور رسم جائز ہے یا نہیں؟ اور خیر القرون کے زمانے میں اس کا رواج تھا یا نہیں؟
جواب:اگر چہ اس عادت کا خیر القرون میں ہونا نظر سے نہیں گزرا مگر شریعت کے قواعد کلیہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ چیز فی نفسہ مباح اور جائز ہے؛ مگر چند عوارض کی بنا پر اس کے بدعت ہونے کا فتویٰ دینا میرا معمول ہے اور وہ عوارض یہ ہیں کہ اکثر لوگ اس عمل کو کرتے وقت نفس صدقہ کو مقصود اور نفع بخش نہیں سمجھتے بلکہ خاص ذبح کرنے اور خون بہانے کو مریض کا فدیہ گمان کرتے ہیں اور یہ بالکل نامعقول بات ہے اور ایسا کرنے کے لیے نص کا ہونا ضروری ہے، اور نص ہے نہیں، اور ایسا اعتقاد رکھنے کی دلیل یہ ہے کہ یہ لوگ اس جانور کی قیمت کے برابر روپیہ صدقہ کرنے پر کبھی راضی نہیں ہوتے۔
کفایۃ المفتی (8/251) میں ہے :
(سوال ) (۱) مریض کی صحت کی نیت سے کوئی جانور ذبح کرکے صدقہ کیا جاوے تاکہ رب العزت مریض کو شفا عطا فرمائے تو یہ جانور ذبح کرنا درست ہے یا نہیں ؟
(۲) جانور اس نیت سے ذبح کیا جائے کہ جان کا بدلہ جان ہوجائے جانور کی جان چلی جائے اور انسان کی جان بچ جائے یعنی خدا وند تعالیٰ جانور کی جان قبول فرماکر بندہ کی جان نہ لیں درست ہے یا نہیں ؟
(جواب) (۱) زندہ جانور صدقہ کردینا زیادہ بہتر ہے ، شفائے مریض کی غرض سے ذبح کرنا اگر محض لوجہ اللہ ہو تو مباح تو ہے لیکن اصل مقصد بالا راقتہ صدقہ ہونا چاہئیے نہ کہ فدیہ جان بجان ۔
(۲) یہ خیال تو بے اصل ہے اباحت صرف اس خیال سے ہے کہ اللہ کے واسطے جان کی قربانی دی جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ جیسے صدقہ مالیہ اللہ کی رحمت کو متوجہ کرتا ہے اسی طرح یہ قربا نی جالب رحمت ہوجائے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مریض کو شفا عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved