• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اسٹنگ کا حکم

استفتاء

1-منسلکہ مضمون’’ذبح سے پہلے اسٹنگ کی اجازت‘‘ پر آپ کی رائے درکار ہے۔خاص طور سے جو انڈر لائن کیے گئے ہیں۔ اسٹنگ کے عمل کو قرآن و سنت کے موافق بتانا کیسے درست ہوسکتا ہے اور اگر کوئی اس کو قرآن و سنت کے مطابق بتائے تو پھر اس کو ثواب کی امید بھی ہوگی؟ جبکہ ذبح کا عمل جو چلا آرہا ہے اس میں یہ اسٹنگ کہیں بھی نہیں ہے۔

2۔جانور کو ذبح سے پہلے زخمی کرنے کی اجازت دینا کیا حکم رکھتا ہے؟

3۔جو عربی عبارت پیش کی گئی ہے کیا وہ اسٹنگ سے متعلق ہے؟

4۔اسٹنگ کے عمل قبول کرنا اور اس کی اجازت دینا اور کفار کے اس طریقہ کار کو قرآن و سنت کے موافق بتانا اس شخص کا کیا حکم ہے ؟

مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے جو امداد الفتاوی میں فرمایا ہے کہ تحسین کا پایا جانا باقریب کفر کے ہے کیا یہاں پر یہ پایا جاتا ہے؟جزاک اللہ

ذبح سے پہلے اسٹنگ کی اجازت

حلال رسیرچ کمیٹی، ۳۴ ایس ایس آر، پورٹ لوئس

موریشیس

اللہ تعالی نے ہمیں ایسا مکمل دین دیا ہے جس میں قیامت تک کوئی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ نئے اٹھنے والا  ہر مسئلہ چاہےسائنسی ہی کیوں نہ ہو، اس کا  شرعی حل موجود ہوتا ہے۔  علماء قران اور احادیث کی گہرائی میں جاکر فقہی نچوڑ نکالتے ہیں۔

میڈیا کے اندر اسٹنگ کا مسئلہ  ابھراجس نے قارئین کو پریشان کردیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جدید ذبح خانوں  میں ذبح سے پہلے اسٹنگ کی جاتی ہے،جس کے نتیجے میں  جتنا بھی گوشت مارکیٹ میں دستیاب ہے سب کا سب اسٹن شدہ  ہے۔ چونکہ گوشت کی کھپت بہت زیادہ ہے اس لئے بڑے پیمانے پر ذبح کی ضرورت ہوتی ہے۔  ذبح کرنے والے کی حفاظت کے پیش نظر اور ذبح کے بعد نقصان کی تقلیل  کے لئے اسٹنگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسٹننگ کہتے ہیں بجلی کے ذریعہ مرغی کو سن کر دینا یا بیل وغیرہ کے سر میں چوٹ لگانا تاکہ ذبح کے بعد اس کی حرکت کم ہو جائے۔

حلال ریسیرچ کمیٹی مکینیکل ذبح کے نظریے کے خلاف ہے جس میں  مشینوں کے ذریعے جانور کو ذبح کیا جاتا ہے۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ (مشینی ذبح) شرعی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا  یعنی ایک انسان چھری وغیرہ کے ذریعے اپنے ہاتھ سے ذبح کرے (یہ شرط ہے)۔  شکار کے علاوہ ذبح کی تعریف کے اندر یہ داخل ہے کہ   تیز دھار چھری کی طرح آلے کے ذریعے گلے کو کھولنا۔

دوسری جانب حلال ریسیرچ کمیٹی  کے یہاں اسٹننگ کو قبول کرنے کی وسعت ہے کیونکہ  یہ قرآن اور حدیث کے مطابق ہے۔  ہم نصوص میں مشینی ذبح کی گنجائش نہیں پاتے جبکہ اسٹنگ کی گنجائش پاتی ہیں بشرطیکہ ذبح کے وقت جانور زندہ ہو۔  کیونکہ مردار  حلال نہیں ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 173 میں مذکور ہے:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ

سب سے پہلے اس آیت میں اس بات پر غور کریں کہ مردار  جانورکو استعمال کرنا  ناجائز اور حرام ہے۔

ثانیاً  اس بات کو یاد رکھیں کہ اگر عیسائی یا یہودی نے (ذبح کے وقت) اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام  لے لیا تو اس کو استعمال کرنا بھی جائز نہیں۔

ثالثاً اگر کسی جانور کو قصداً یا  بلا قصد زخمی کیا گیا  اس کی موت سے پہلے اسے ذبح کر دیا گیا تو بالاتفاق وہ حلال ہے اور اسے استعمال کرنا جائز ہے۔

مختلف تفاسیر میں یہی معنی مذکور ہے:

{ حُرّمَتْ عَلَيْكُمُ الميتة } أي أكلها { والدم } أي المسفوح كما في ( الأنعام ) [ 145 : 6 ] { وَلَحْمُ الخنزير وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ الله بِهِ } بأن ذبح على اسم غيره{والمنخنقة } الميتة خنقاً { والموقوذة } المقتولة ضرباً { والمتردية } الساقطة من علو إلى أسفل فماتت { والنطيحة } المقتولة بنطح أخرى لها { وَمَا أَكَلَ السبع } منه { إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ } أي أدركتم فيه الروح من هذه الأشياء فذبحتموه(جلالين سیوطی)

{ إلا ما ذكيتم } قال علي ، وابن عباس ، والحسن ، وقتادة ، وابراهيم ، وطاووس،وعبيدبن عمير،والضحاك،وابن زيد،والجمهور:هو راجع إلى المذكورات أي من قوله : والمنخنقة إلى وما أكل السبع . فما أدرك منها بطرف بعض ، أو بضرب برجل ، أو يحرك ذنباً               (بحر المعيط)

وقوله: { إِلا مَا ذَكَّيْتُمْ } عائد على ما يمكن عوده عليه، مما انعقد سبب موته فأمكن تداركه بذكاة، وفيه حياة مستقرة، وذلك إنما يعود على قوله: { وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ }

وقال علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس في قوله: { إِلا مَا ذَكَّيْتُمْ } يقول: إلا ما ذبحتم من هؤلاء وفيه روح، فكلوه، فهو ذكي. وكذا رُوي عن سعيد بن جبير، والحسن البصري، والسدي.

وقال ابن أبي حاتم: حدثنا أبو سعيد الأشَجّ، حدثنا حَفْص بن غياث حدثنا جعفر بن محمد، عن أبيه، عن علي قال: { وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلا مَا ذَكَّيْتُمْ } قال: إن مَصَعَتْ بذنبها أو رَكَضَتْ برجلها، أو طَرَفَتْ بعينها فكُلْ.

وقال ابن جرير: حدثنا القاسم، حدثنا الحسين، حدثنا هشيم وعباد قالا حدثنا حجاج، عن حصين، عن الشعبي، عن الحارث، عن علي قال: إذا أدركت ذكاة الموقوذة والمتردية والنطيحة، وهي تحرك يدًا أو رجلا فكلها.

وهكذا رُوي عن طاوس، والحسن، وقتادة وعُبَيد بن عُمير، والضحاك وغير واحد: أن المذكاة متي تحركت بحركة تدل على بقاء الحياة فيها بعد الذبح، فهي حلال. وهذا مذهب جمهور الفقهاء، وبه قال أبو حنيفة والشافعي، وأحمد بن حنبل. وقال ابن وهب: سُئل مالك عن الشاة التي يخرق جوفَها السَّبُعُ حتى تخرج أمعاؤها؟ فقال مالك: لا أرى أن تذكى أيّ شيء يُذَكَّى منها.    (ابن كثير)

علامہ شامی نے بھی اسی کے مطابق لکھا ہے:

وَالْمُخْتَارُأَنَّ كُلَّ شَيْءٍ ذُبِحَ وَهُوَ حَيٌّ أُكِلَ،عَلَيْهِ الْفَتْوَى-{ إلَّا مَا ذكَّيْتُمْ}- مِنْ غَيْرِ تَفْصِيلٍ (شامي)

شامی ہی میں زندگی کی تعریف موجود ہے کہ ذبح کے بعد جتنی جان ہوتی ہے وہ مراد ہے

أنه يكفي من الحياة قدر ما يبقى في المذبوح(شامي)

اسٹن شدہ میں اتنی حرکت اور زندگی ہوتی ہے۔  لہذا اسٹن شدہ جانور کو کھانا جائز ہے۔ بہرحال اگر اسٹننگ کے بعد جانور مر جاتا ہے تو یہ مردار ہے اور اس کا کھانا حرام ہے۔ ذبح سے یہ جانور حلال نہ ہوگا۔حلال مونیٹرنگ اداروں کو چاہیے کہ اس بات کی  یقین دہانی کریں کہ ذبح کے وقت اسٹن شدہ جانور  زندہ ہو۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ اسٹنگ کے طریقے کو قرآن و سنت کے مطابق کہنے کے دو معنیٰ ہو سکتے ہیں۔  ایک یہ کہ اس میں خلاف شرع کوئی بات نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس طریقے کے خلاف شرع ہونے کے باوجود اگر اس طریقے سے جانور کو ذبح کیا جائے تو وہ جانور حلال ہوگا ۔ پہلے معنیٰ کے لحاظ سے اسٹنگ کے عمل کو قرآن وسنت کے موافق کہنا درست نہیں جبکہ دوسرے معنیٰ کے لحاظ سے اسے قرآ ن و سنت کے موافق کہنا (یعنی اس طریقے سے ذبح شدہ جانور کو حلال کہنا) درست ہے۔

2۔ ذبح اختیاری میں جانور کو ذبح سے پہلے زخمی کرنا جائز نہیں۔

3۔ عربی کی جو عبارت پیش کی گئی ہے اس سے مقصود صرف اتنی بات ہے کہ اسٹنگ سے ذبح شدہ جانور حلال ہوگاحرام نہ ہوگا۔ اور اس لحاظ سے وہ عبارت اسٹنگ کے متعلق ہو سکتی ہے۔

4۔ اسٹنگ کے عمل کو قبول کرنا یا اس کی اجازت دینا یا اس کو بالمعنیٰ الاول قرآن وسنت کے موافق بتانا جائز نہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اسٹنگ کی تحسین سے متعلق جو بات فرمائی ہے منسلکہ تحریر میں وہ ہمیں محسوس نہیں ہوتی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved