- فتوی نمبر: 14-132
- تاریخ: 24 مئی 2019
- عنوانات: حظر و اباحت > ذبح کے مسائل
استفتاء
آجکل ہمارے شہر لاہور میں شتر مرغ کا گوشت فروخت کیا جا رہا ہے جو مہنگا ہونے کے باوجود اس لیے لوگ شوق سے خرید رہے ہیں کہ یہ طبی طور پر مفید ہے ۔ہم نے علماء سے سنا ہے کہ اونٹ کو نحر کرنا سنت ہے اور ذبح کرنا مکروہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اونٹ کے علاوہ شتر مرغ اور دیگر وہ جانور جن کی گردن لمبی ہوتی ہے جیسے ، زرافہ اور لامہ (جو جنوبی امریکہ میں پایا جانے والا اونٹ نما جانور ہے )وغیرہ ، کیا ان جانوروں میں بھی اونٹ کی طرح نحر کرنا ہی سنت ہے یا ان کو مرغی اور گائے وغیرہ کی طرح ذبح کیا جائے گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
شتر مرغ، زرافہ اور دیگر لمبی گردن والے تمام جانور اور پرندوں میں اونٹ کی طرح نحر کرنا سنت ہے۔ تاہم اگر ایسے جانوروں کو نحرکے بجائے ذبح کر دیا جائے تو جانور حلال شمار ہو گا اگرچہ ایسا کرنا سنت کے خلاف اور مکروہ تنزیہی ہے۔
واعلم أن النعام والإوز كالإبل ينحر، والضابط كل ما له عنق طويل. أبو السعود عن شرح الكنز للأبياري. (الشامي ج 9 ص 505)
والذبح أنسب بطبيعة البقر لقصر أعناقها بخلاف الإبل، وقد أوضح حكمة هذا التفاوت العلامة القرافي فقال: "وأصل ذلك أن المقصود بالذكاة الفصل بين الحرام الذي هو الفضلات المستقذرة وبين اللحم الحلال بأسهل الطرق على الحيوان، فما طالت عنقه كالإبل فنحره أسهل لزهوق روحه لقربه من الجسد وبُعد الذبح منه، والذبح في الغنم أسهل عليها لقربه من الجسد والرأس معا، ولما توسطت البقر بين النوعين جاز الأمران، وأشكل على هذه القاعدة النعامة، ففي الجواهر أنها تذبح -ولم يحك خلافًا – مع طول عنقها، ولعل الفرق بينها وبين الإبل أن نحرها ممكن من جوفها، فنحرها شق لجوفها والظاهر أن عدم الخلاف في ذلك إنما هو في المذهب المالكي، وإلا فقد صرح الحنفية بنحر ما كان طويل الرقبة من الطيور كالوز والنعام (مجلة مجمع الفقه الاسلامي ج 2، ص 19744 الشاملة)
ولو نحر ما يذبح وذبح ما ينحر يحل لوجود فري الأوداج ولكنه يكره؛ لأن السنة في الإبل النحر وفي غيرها الذبح. (البدائع 5، 41)
و حب نحر الابل و كره ذبحها والحكم في غنم و بقر عكسه و كره نحرها لترك السنة۔۔۔۔۔۔قال في الشامية تحته: ينبغي ان تكون كراهة تنزيه (رد المحتار ج 9، ص 505)۔۔۔۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved