• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

آب زمزم پینے کے آداب

  • فتوی نمبر: 30-334
  • تاریخ: 08 ستمبر 2023
  • عنوانات:

استفتاء

آب  زمزم پینے کے کیا آداب ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آب زمزم پينے كے آداب درج ذیل ہیں:

عن عثمان بن الأسود، قال: جاء رجل إلى ابن عباس، فقال: من أين جئت؟ فقال: ‌شربت ‌من ‌زمزم، فقال له ابن عباس: أشربت منها كما ينبغي؟ قال: وكيف ذاك يا أبا عباس؟ قال: إذا شربت منها فاستقبل القبلة، واذكر اسم الله، وتنفس ثلاثا، وتضلع منها، فإذا فرغت منها فاحمد الله فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «آية بيننا وبين المنافقين أنهم لا يتضلعون من زمزم.

ترجمہ: عثمان بن اسودؒ کہتے ہیں کہ ایک شخص حضرت ابن عباسؓ کے پاس آیا، آپؓ نے اس سے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں زمزم (کے کنویں سے) زمزم پی کر آیا ہوں،  آپؓ نے پوچھا  کیا زمزم جیسے پینا چاہیے  تھا تم نے اسی طرح پیا ہے؟ اس شخص نے پوچھا اے ابن عباس  وہ کیا طریقہ ہے؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا تم زمزم پیو تو قبلہ رُخ ہو جاؤ اور بسم اللہ پڑھو اور تین سانس میں پیو اور کوکھ بھر کے پیو اور جب اس کو پی کر فارغ ہو تو الحمد للہ کہو کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہمارے  اور منافقوں  کے درمیان ایک فرق یہ ہے کہ وہ کوکھ بھر کے زمزم نہیں پیتے۔

نوٹ:بعض حضرات نے بعض احادیث کے پیش نظر آب  زمزم پینے کا ایک ادب یہ بھی لکھا ہے کہ اسے کھڑے ہوکر پیا جائے ، تاہم اکثر اہل علم حضرات کا مؤقف یہ ہے کہ آب زمزم بھی عام پانی کی طرح بیٹھ کر پینا چاہیے اور جن احادیث میں کھڑے ہوکر پینے کا ذکر ہے وہ کسی عذر پر محمول ہیں۔تاہم اگر کوئی کھڑے ہوکر پیئے (خواہ زمزم کے کنویں کے پاس ہو یا کسی اور جگہ) تو چونکہ حضورﷺ کے عمل کو بیان جواز کے لیے بھی محمول کیا گیا ہے اس لیے اسے نکیر نہ کی جائے گی۔

شامی(1/275) میں ہے:

وأن يشرب بعده من فضل وضوئه) ‌كماء ‌زمزم (مستقبل القبلة قائما) أو قاعدا، وفيما عداهما يكره قائما تنزيها

(قوله: وفيما عداهما يكره إلخ) أفاد أن المقصود من قوله قائما عدم الكراهة لا دخوله تحت المستحب ……… والحاصل أن انتفاء الكراهة في الشرب قائم في هذين الموضوعين محل كلام فضلا عن استحباب القيام فيهما، ولعل الأوجه عدم الكراهة إن لم نقل بالاستحباب لأن ماء زمزم شفاء وكذا فضل الوضوء

عمدۃ القاری( 21/194)  ميں ہے:

واعلم أنه قد وردت أحاديث بجواز الشرب قائما، ووردت أحاديث بمنعه.

(فمن أحاديث الجواز) حديث علي، وحديث ابن عباس. رواهما البخاري هنا، وحديث ابن عمر رواه الترمذي من حديث نافع عنه، وقال: كنا نأكل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونحن نمشي ونشرب ونحن قيام ……………  (ومن أحاديث المنع) ما رواه الأثرم عن معمر عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة مرفوعا: لو يعلم الذي يشرب وهو قائم لاستقاء وروى مسلم في صحيحه من حديث أبي هريرة يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يشربن أحدكم قائما، فمن نسي فليستقىء …………….. ثم كيفية الجمع بينهما على أقوال: أحدها: أن النهي محمول على التنزيه لا على التحريم ……….  الثاني: أن المراد بالقائم هنا الماشي لأن الماشي يسمى قائما،  ……………. الثالث: أنه محمول على أن يأتي الرجل أصحابه بشراب فيبدأ قبل أصحابه فيشرب قائما،  الرابع: تضعيف أحاديث النهي عن الشرب قائما، قاله جماعة من المالكية، منهم: أبو عمر بن عبد البر، وفيه نظر. الخامس: أن أحاديث النهي منسوخة  ……………… السادس: ما قاله ابن حزم أن أحاديث النهي ناسخة لأحاديث الشرب قائما، وقال النووي في (شرح مسلم) : الصواب أن النهي محمول على كراهة التنزيه، وأما شربه صلى الله عليه وسلم قائما فبيانه للجواز فلا إشكال ولا تعارض، قال: وهذا الذي ذكرناه يتعين المصير إليه

مسنون حج وعمرہ، مؤلفہ :حضرت  ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحبؒ (ص:214) میں ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَقَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ مِنْ زَمْزَمَ فَشَرِبَ وَ هُوَقَائِمٌ. (بخاری)

حضرت عبداللہ بن عباس یہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو زمزم دیا توآپ نے کھڑے کھڑے اس کو پیا۔

سب محد ثین نے اس کو طواف زیارت کے بعد کا واقعہ قرار دیا ہے۔ بظاہر زمزم کے کنویں کے پاس پانی یا کیچڑ ہونے کی وجہ سے بیٹھنے کی مناسب جگہ نہ ہونے کے عذر سے آپ ﷺ نے زمزم کھڑے کھڑے پیا۔ بغیر عذر کے کھڑے ہو کر کسی طرح کے مشروب کو پینے سے آپ ﷺ نے منع فرمایا بلکہ ایک نے کھڑے ہو کر پانی پیا تو اس کو قے کرنے کا حکم دیا۔بعض حضرات نے زمزم کھڑے ہو کر پینے کو مستحب کہا ہے لیکن یہ قول کرنا مشکل ہے۔ زیادہ سے زیادہ عدم کراہت اور جواز کا قول ہو سکتا ہے اس وجہ سے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمزم کو کھڑے کھڑے پینے میں بیان جواز سمجھا جائے۔ لہذا کھڑے ہو کر زمزم پینے کو سنت نہ سمجھا جائے ۔ اصل سنت بیٹھ کر ہی پینا ہے کیونکہ آپ ﷺ سے دیگر مواقع پر زمزم کھڑے ہو کر پینے کے بارے میں کوئی قولی یا فعلی تصریح نہیں ملتی لہذا زمزم کا پینا بھی مشروب کے عام ضابطہ میں داخل ہو گا۔

تنبیہ: اگر کوئی کھڑے ہو کر پیئے خواہ زمزم کے کنویں کے پاس یا کسی بھی اور جگہ پر تو چونکہ رسول اللہ ﷺ کے عمل کو بیان جواز پر بھی محمول کیا گیا ہے لہٰذا اس کو نکیر نہ کی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved