• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگر تم نے اپنے گھروالوں سے کوئی Contact کیا تو تم میری طرف سےفارغ ہو

استفتاء

ایک عورت کے شوہر نے اس کو اپنی ساس  یعنی اس عورت کی ماں سے کسی جھگڑے کی وجہ سے کچھ اس قسم کے الفاظ کہے” اگر تم نے ان سے کوئی  Contact   کیا تو تم میری طرف سے فارغ ہو” یہ الفاظ دو دفعہ تو لازمی کہے شاید دو سے زیادہ بھی کہے۔

عورت کے پوچھنے پر اس کے خاوند نے بتایا ہے کہ ” ان سے مراد اس عورت کی والدہ اور بہن ہیں (عورت کے والد کا انتقال ہوچکاہے)۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ فارغ ہونے سے میر ی مراد طلاق بالکل نہیں تھا اور تم بیکار میں اس بات کو بڑھا رہی ہو۔ جب عورت نے اپنے شوہر سے کہاکہ اپنے الفاظ واپس لے لیں میں اپنے گھر والوں سے بالکل نہیں ملوں گی تو اس کے شوہر نے کہاکہ نہیں میں اپنے الفاظ واپس نہیں لوں گا ورنہ تم اپنے گھروالوں سے ملوگی جبکہ پہلے اس نے خود کہا تھا کہ میری ایسی کوئی نیت نہیں تھی۔ ہاں شوہر نے اپنی بیوی کو یہ خود کہا تھاکہ اپنی خالہ سے بات کرسکتی ہو اور گھر والوں کی خیر خیریت معلوم کرسکتی ہو۔ اس عورت نے ابھی تک اپنی والدہ اور بہنوں سے کوئی رابطہ نہیں کیاہے۔ ہاں اپنی خالہ اور اس کے بچوں سے ضرور بات ہوئی ہے۔

1۔اس آدمی کے یہ الفاظ کہنے سے کیا کوئی ایسی شرط قائم ہوئی ہے جس سے عورت کو طلاق ہوسکتی ہے ؟

2۔کیا اس عورت کا اپنی خالہ کے ذریعے اپنی والدہ اور بہنوں کو کسی قسم کا پیغام دینا اپنے گھر والوں کے ساتھ رابطہ کرنے میں آئے گا؟

3۔کیا اس شرط کو ختم کرنے کوئی طریقہ ہے؟

4۔اس معاملہ کے بارے میں دونوں (شوہر اور بیوی ) کو کیا کرناچاہیے؟

نوٹ: جھگڑا ہواتھا اس کے بعد شوہر نے  مذکورہ الفاظ کہے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ الفاظ کہ” اگر تم نے ان سے کوئی  Contact    کیا تو تم میری طرف سے فارغ ہو” سے شرط قائم ہوگئی ہے ، اس لیے اگر عورت اپنے گھر والوں سے تعلق اور براہ راست رابطہ کرے گی تو دوبائن طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔

2۔اس کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بیوی کے رابطہ کرنے سے پہلے شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق  بائن دے دےمثلاً یوں کہے کہ ” تجھے ایک طلاق بائن دی”۔ اس کے بعد عورت پوری عدت گذارے جس کی مقدار تین ماہواریاں ہے۔ عدت ختم ہونے کے بعد عورت اپنے گھر والوں سے رابطہ کرے۔ اس کے بعد نئے سرے سے نکاح کرے۔

وفي الشامية: الكنايات ثلاثة أقسام…(ومايصلح شتما وجواباً)خلية برية،بتة،بتلة، حرام…..والحاصل أن الأول يتوقف عليها في حالة الرضاء فقط ويقع في حالة الغضب والمذاكرة بلا نية. (ص: 505، ج:2)

لايلحق البائن البائن إذا أمكن جعله إخباراً عن الأول كأنت بائن بائن.

اس  کی وضاحت یہ ہے کہ بائن بائن کو لاحق نہیں ہوتی جب دوسرے بائن کوپہلے والے سے خبر بنانا صحیح ہو۔ دوسرے بائن کو پہلے بائن کی خبرتب ہی بنا سکتےہیں جبکہ پہلے بائن کا وقوع ہوچکاہو اور پھر دوسرے بائن سے اس کی خبر دی جائے۔

جیسے انت بائن میں پہلے انت بائن سے عورت کو طلاق بائن پڑگئی ،لہذا دوسرے لفظ بائن کو اس سے خبر بنانا صحیح ہے۔

اواگر کہیں ایسی صورت ہوکہ وہاں پہلے بائن کا ابھی تک وقوع نہ ہواہو تو دوسرے لفظ بائن کو اس سے خبر نہیں نہیں بناسکتے اس لیے کہ خبر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس کا وقوع ہوچکا ہو۔ پھر اس کی خبر دی جائے۔ اور استفتاء میں مذکورہ تعلیق میں بھی یہی صورت ہے کہ دوسری تعلیق کے وقت چونکہ عورت پر تعلیق کی وجہ سے کوئی طلاق نہیں پڑی ، لہذا دوسری تعلیق کو پہلی تعلیق کی خبر بنانا درست نہیں۔

لأن كلا من التعليقية لا يصلح إخبارا عن الآخر لعدم كونها طالقا عند كل من التعليقين. (شامی ، ص:531 ، ج:4)۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved